پیغام بھیجا: ’’مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ آپ نے اپنے لیے ایک محل بنایا ہے جسے آپ قلعے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور اسے قصرِ سعد کہا جاتا ہے۔ یہ آپ اور لوگوں کے درمیان ایک دروازہ ہے، لہٰذا یہ آپ کا محل نہیں۔ یہاں سے نکل جائیں اور بیت المال کے قریب ایک گھر میں منتقل ہو جائیں، اس محل کو بند کر دیں اور اپنے گھر میں ایسا دروازہ نہ رکھیں جو لوگوں کو اپنے مسائل آپ کے پاس لانے سے روکے۔‘‘ [1] جو فتوحات سیدنا سعد رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے عراق کی سر زمین میں حاصل کیں وہ ایک اسلامی ورثہ ہیں۔ وہ سب اللہ کے لشکر اور اس کے راستے کے داعی تھے لیکن یہ سب فضائل و خصائل مل کر بھی اسلام کی رو سے اور عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ اپنے لیے ایک محل بنا لیں۔ لشکر کے کسی سپاہی کا بھی ایسا محل نہیں تھا کیونکہ روم اور فارس کے حکمرانوں کے لیے ایسے محل بنانا ٹھیک تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو یہ کام زیب نہیں دیتا تھا۔ ان کے لیے یہ بھی جائز نہیں کہ وہ اپنے اور رعایا کے درمیان دروازے اور دیواریں کھڑی کریں یا دربان بٹھائیں تا کہ وہ لوگوں کو ان کے پاس آنے سے روکیں۔ یوسف علیہ السلام بھی مصر کے خزانوں کے نگران تھے لیکن کبھی انھوں نے پیٹ بھر کے کھانا نہیں کھایا تھا۔ اور جب ان سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے یہ مشہور مقولہ کہا: ’’مجھے ڈر ہے کہ جب میں پیٹ بھر کے کھاؤں گا تو بھوکے لوگوں کو بھول جاؤں گا۔‘‘ |