جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں دیکھا تو ان کی حالت یہ تھی کہ ان کے پیٹ پتلے ہو گئے تھے، اعضاء سوکھ گئے تھے اور رنگ بدل گیا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سعد رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجا: ’’مجھے بتائیے کہ عربوں کے رنگ اور جسمانی حالت کیوں تبدیل ہو گئی ہے؟ ‘‘ انھوں نے جواب میں لکھا: ’’شہروں کی آب و ہوا نے ان کے رنگ تبدیل کر دیے ہیں۔ عربوں کو وہی آب و ہوا راس آتی ہے جو ان کے اونٹوں کو راس آئے۔‘‘ [1] سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں پیغام بھیجا کہ ’’سلمان رضی اللہ عنہ اور حذیفہ رضی اللہ عنہ کو ایسی جگہ کی تلاش میں بھیجیں جو خشک ہو اور سمندری آب و ہوا بھی رکھتی ہو، میرے اور تمھارے درمیان اس جگہ پر کوئی رکاوٹ بھی نہ ہو۔ اس مقصد کے لیے کوفہ کی سر زمین کو چنا گیا۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے اس شہر کا نقشہ تیار کیا اور بنیاد رکھی۔ بنیاد رکھتے ہوئے آپ نے یہ دعا فرمائی: ’’اے اللہ! اس شہر کو دشمن سے بچاؤ کے لیے مسلمانوں کی ڈھال بنا۔‘‘ چنانچہ کوئی بیرونی دشمن اس قلعے میں داخل نہ ہو سکا، نہ عراق کی سر زمین کو روند سکا ہاں خلیفہ عبدالملک بن مروان کے عہد میں مسلمانوں کا یہ قلعہ منہدم ہو کر کھنڈر میں تبدیل ہو گیا۔ ایک دفعہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو خبر ملی کہ سعد رضی اللہ عنہ نے اپنے لیے ایک محل تعمیر کیا ہے جسے قصرِ سعد (سعد کا محل) کہا جاتا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے محمد بن مسلمہ کو کوفہ بھیجا اور حکم دیا کہ اس محل کا دروازہ توڑ دو اور واپس آ جاؤ۔ ساتھ ہی آپ رضی اللہ عنہ نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو |