Maktaba Wahhabi

125 - 269
ان سب کا وارث دوسری قوم کو بنا دیا۔‘‘ [1] سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے وہاں نمازِ فتح کی آٹھ رکعتیں اکٹھی ادا کیں[2] اور مال غنیمت لشکر کے سپاہیوں میں تقسیم کیا۔ ہر سوار کے حصے میں نو ہزار اشرفیاں اور 9 جانور آئے۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے خمس (پانچواں حصہ) عمر رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ بھیج دیا۔ جب عمر رضی اللہ عنہ نے یاقوت اور ہیرے جواہرات دیکھے تو رونے لگے۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ’’اے امیر المومنین! آپ کیوں روتے ہیں؟ اللہ کی قسم! یہ تو مقامِ شکر ہے۔‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ’’اللہ کی قسم! میں اس و جہ سے نہیں رو رہا۔ جب بھی اللہ کسی قوم کے لوگوں کو مال عطا کرتا ہے تو وہ آپس میں حسد و بغض کرنے لگتے ہیں۔ اور جب وہ آپس میں حسد کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے مابین پھوٹ ڈال دیتا ہے۔‘‘ [3] اللہ کی قسم! جو کچھ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اور ان سے پہلے جو کچھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ سچ ثابت ہوا۔ دنیا کی حرص کی ابتدا ہو گئی۔ شروع میں یہ چند آدمیوں میں ظاہر ہوتی ہے، پھر حرص و لالچ سے آپس میں تلواریں کھنچ جاتی ہیں۔ اس دفعہ کسی خارجی خطرے کی و جہ سے ایسا نہیں ہوا تھا بلکہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے تھے۔ پھر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکر کا ایک وفد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا تا کہ تکریت اور موصل کی فتح کے بارے میں آپ سے مشورہ کر سکیں۔
Flag Counter