سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے محسوس کیا کہ وقت ان کے دشمنوں کے حق میں ہے، لہٰذا انھوں نے فیصلہ کر لیا کہ وہ ان سے یہ برتری چھین لیں گے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ان کے اور مدائن کے درمیان دریائے دجلہ پڑتا تھا جو ان دِنوں اپنے جوبن پر تھا۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے غور و فکر کے بعد لشکر کو دریا میں کودنے کا حکم دے دیا۔ اس سے پہلے کہ اسلامی لشکر دریائے دجلہ عبور کرنا شروع کرتا، سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے دریا کے دوسرے کنارے کو محفوظ بنانے کا اقدام کیا جسے دشمنوں نے گھیر رکھا تھا۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے اس مقصد کے لیے دو چھوٹے لشکر تیار کیے۔ ایک لشکر ’’الاھوال‘‘ تھا جس پر انھوں نے سیدنا عاصم بن عمرو کو امیر بنایا اور دوسرا ’’الخرساء‘‘ تھا جس پر سیدنا قعقاع بن عمر کو امیر مقرر کیا۔ ان دونوں لشکروں کے ذمے یہ کام لگایا گیا کہ وہ دوسری طرف جا کر دشمن پر حملہ آور ہوں اور ان میں گھس جائیں تا کہ ان کے پیچھے باقی لشکر امن و امان سے دریا عبور کر لے۔ چنانچہ انھوں نے اپنا کام بڑی مہارت سے انجام دیا۔ اور سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے ایسی کامیابی حاصل کی جس نے مؤرخین کو حیرت زدہ کر دیا۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ خود بھی حیرت زدہ تھے اور انھوں نے اس معرکے میں اپنے ساتھی اور رفیق کار سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو بھی ششدر کر دیا جنھوں نے اپنے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا: ’’اسلام ترقی کر گیا۔ اللہ کی قسم! ان کے لیے دریا بھی مطیع ہو گئے ہیں جیسے خشکی ان کی مطیع ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں سلمان کی جان ہے! جس طرح اسلام میں لوگ فوج در فوج داخل ہوئے ہیں، اسی طرح خارج ہو جائیں گے۔‘‘ [1] |