Maktaba Wahhabi

122 - 269
تھا۔ دراصل وہ معرکۂ قادسیہ کی خوشخبری لے کر آیا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے سوال کیا کہ ’’کہاں سے آر ہے ہو؟‘‘ خوشخبری دینے والے نے اس جگہ کا نام بتایا جہاں سے وہ آ رہا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’اے اللہ کے بندے! مجھے بتاؤ کیا خبر لائے ہو؟ ‘‘ قاصد نے جواب دیا: ’’اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو شکست سے دو چار کر دیا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنی اونٹنی کو دارالخلافہ کی طرف ایڑھ لگا کر بھگا دیا جبکہ عمر رضی اللہ عنہ اس کے پیچھے پیچھے بھاگ رہے تھے اور سوال کرتے جا رہے تھے حتی کہ وہ دونوں مدینے میں داخل ہو گئے۔ جب لوگ عمر رضی اللہ عنہ کو ’’امیر المومنین ‘‘کہہ کر سلام کرنے لگے تو قاصد کو پتا چلا کہ آپ ہی امیر المومنین ہیں۔ قاصد کہنے لگا: ’’اللہ آپ پر رحم فرمائے، آپ نے مجھے کیوں نہ بتایا کہ آپ امیر المومنین ہیں؟ ‘‘ عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ’’کوئی حرج نہیں، میرے بھائی!‘‘ اے عمر! اللہ آپ پر رحم کرے اور آپ سے راضی ہو۔ اے سعد! اللہ آپ پر بھی اس قدر رحم کرے جتنی آپ نے فتح و نصرت حاصل کی۔ مدائن کے معرکے میں سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو بہت بڑی آزمائش کا سامنا کرنا پڑا۔ مدائن کے معرکے اور جنگِ قادسیہ کے درمیان دو سال کا وقفہ تھا۔ اس عرصہ کے دوران میں بھی مسلمانوں اور اہل فارس کے درمیان چھوٹی چھوٹی جھڑپیں ہوتی رہیں حتی کہ تمام شکست خوردہ فارسی لشکر اور باقی ماندہ سپاہی مدائن میں جمع ہو گئے اور ایک آخری اور فیصلہ کن ٹکراؤ کی تیاری کرنے لگے۔
Flag Counter