Maktaba Wahhabi

121 - 269
اس آواز کو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ پہچانتے تھے۔ یہ آواز ہلال بن علقمہ رضی اللہ عنہ کی تھی جو رستم کے تخت پر چڑھ کر مسلمانوں کو رومی لشکر کے سپہ سالار رستم کے قتل کی خوشخبری دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے: ’’رب کعبہ کی قسم! میں نے رستم کو قتل کر دیا ہے۔‘‘ مسلمان ان کے گرد جمع ہو گئے اور تکبیر کا نعرہ بلند کیا۔ جنگ ختم ہو گئی۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو فتح عطا فرمائی۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے لشکر کے روانہ ہونے کے بعد کیا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آرام کیا؟ کیا انھیں نیند آئی؟ کیا انھیں سکون نصیب ہوا؟ کیا ان کے دل کو قرار آیا؟ صحیح ترین تاریخی کتب میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک روایت ملتی ہے کہ وہ روزانہ صبح شہرِ مدینہ سے باہر چلے جاتے اور وہاں سے گزرنے والے قافلوں اور تاجروں سے قادسیہ کے معرکے کے متعلق معلومات حاصل کرتے۔ وہ ان سے اس سکینت و اطمینان کے متعلق دریافت کرتے جو اس دور دراز مقام پر مسلمانوں کے لشکر کو ڈھانپ لیتی ہے۔ اور مسلمانوں کی تیاری، ہتھیاروں کی معلومات غذائی رسد، غرض ہر پہلو سے ان کے متعلق خبریں حاصل کرنے کی کوشش کرتے کہ شاید ان میں فتح کی نوید بھی شامل ہو حتی کہ دوپہر ہو جاتی۔ پھر اپنے گھر لوٹ آتے۔ ایک دن عمر رضی اللہ عنہ اپنے معمول کے مطابق مدینہ سے باہر قادسیہ کی طرف سے آنے والے کسی قاصد کا انتظار کر رہے تھے کہ انھیں ایک آدمی ملا جو مدینے کی طرف آ رہا
Flag Counter