نے اس امت کے معاملے کو حقیر سمجھا۔‘‘ [1] مغیرہ رضی اللہ عنہ سعد رضی اللہ عنہ کے پاس لوٹ آئے اور فرمایا: ’’یہ جنگ ہے۔‘‘ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ شیر کی مانند اپنے لشکر میں تشریف لائے اور یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿ وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ﴾ ’’اور ہم زبور میں نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہی ہوں گے۔‘‘ [2] پھر ظہر کی نماز ادا کی اور چار تکبیرات کہہ کر دشمن پر حملہ کر دیا۔ انھوں نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ یہ دعا پڑھیں: (( لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ‘)) ’’نہیں ہے نیکی کرنے کی طاقت اور نہ گناہ سے بچنے کی قوت مگر اللہ کے ساتھ۔‘‘ [3] قریب تھا کہ ہاتھی مسلمانوں کی صفوں کو روند ڈالتے لیکن مومن قیادت نے اس نئی طرز کے حملے کو پسپا کر دیا جسے عرب جانتے ہی نہیں تھے۔ قعقاع رضی اللہ عنہ نے اپنی قوم کو پکارا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکارو! اب ہم کیا کریں؟ جنگ کا پانسہ پلٹنے لگا۔ لیکن چند لمحوں ہی کے بعد مسلم قیادت نے اس کا حل نکال لیا، انھوں نے اونٹوں پر اونٹ بانوں کو بٹھا کر ان کے ہاتھوں میں مشعلیں تھمائیں اور |