اگلے دن رستم نے ایک بار پھر پیغام بھیجا کہ ہماری طرف اپنا ایک قاصد بھیجیں۔ اس بار سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کا سفیر بنا کر روانہ کیا۔ سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ جب وہاں پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ تمام درباری شاہی ٹوپیاں اور ایسا لباس پہنے ہوئے ہیں جو سونے کے تاروں سے بُنا گیا تھا۔ سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ سیدھے رستم کے پاس پہنچے اور اس کے تخت پر جا بیٹھے۔ رستم کے درباری فوراً آگے بڑھے اور انھیں تخت سے نیچے اتارا۔ اس پر مغیرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ہمیں تمھاری عقل و دانش کا اندازہ ہو گیا۔ میں نے تم سے زیادہ بیوقوف کوئی قوم نہیں دیکھی۔ ہم عرب کے باشندے ہیں جو کسی کی غلامی قبول نہیں کرتے۔ میں نے سمجھا کہ تم اپنی قوم کی مدد کرتے ہو گے جیسے ہم کرتے ہیں لیکن امر واقع اس کے برعکس ہے۔ اب تک تم نے جو کیا اس سے بہتر تھا کہ تم مجھے بتا دیتے کہ تم میں سے کچھ غلام ہیں اور کچھ آقا ہیں۔ آقا و غلام کی یہ تقسیم تمھاری بقا برقرار نہیں رکھ سکتی۔ میں تمھارے پاس خود چل کر نہیں آیا بلکہ تم نے مجھے بلایا ہے۔ آج میں جان گیا ہوں کہ تم شکست خوردہ ہو کیونکہ ملک ایسی عقلوں اور ایسے چال چلن سے نہیں چلا کرتے۔‘‘ [1] تمھارا کیا خیال ہے کہ اس تیسرے لشکر نما انسان نے کیا کر دکھایا؟ اس پیغام کا رومیوں پر بہت گہرا اثر ہوا کیونکہ ربعی بن عامر اور حذیفہ بن محصن رضی اللہ عنہا کی سفارتی مہمات نے ان کے اندرونی اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا تھا اور ان میں یہ سوچ پروان چڑھ رہی تھی کہ وہ ان عرب کے باشندوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ جبکہ مغیرہ رضی اللہ عنہ کی سفارتی مہم نے ان کے جوانوں میں اپنے سرداروں کے خلاف جو اں مردی پیدا کر |