Maktaba Wahhabi

116 - 269
انھوں نے اپنے پیش رو جیسا ہی جواب دیا۔ رستم نے سوال کیا: یہ مہلت کس دن تک ہے؟ انھوں نے اس کے جواب میں کہا: ’’گزشتہ دن کو ملا کر تین دن تک۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اپنے ساتھیوں میں لوٹ آئے۔ ان کے جانے کے بعد رستم نے اپنے درباریوں سے کہا: افسوس ہو تم پر، کیا تم وہ نہیں دیکھتے جو میں دیکھ رہا ہوں؟ کل پہلا قاصد ہمارے پاس آیا اور ہماری ہی زمین پر ہمیں پچھاڑ گیا۔ اس نے ہماری تحقیر کی اور ہماری شان و شوکت کو اپنے گھوڑے کے سموں تلے روند ڈالا۔ اور آج یہ قاصد ہمارے پاس آیا، یہ کس قدر با رعب چہرے والا تھا، ہماری ہی زمین پر ہمارے سامنے سینہ تانے کھڑا تھا۔[1] کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ یہ کوئی دو لشکروں کے درمیان صلح کے پیغامات نہیں ہیں، نہ یہ جنگ یا سلامتی کے معاملے کی کوئی بات چیت ہے۔ یہ تو حقیقی جنگ تھی سعد رضی اللہ عنہ ایک آدمی کی صورت میں پورا لشکر بھیج رہے تھے جو ہمارے مفروضات کو ریزہ ریزہ کر دیتا تھا، پھر جہاں سے آتا تھا وہیں لوٹ جاتا تھا۔ قیادت ایسی ہی ہونی چاہیے۔ رستم اندرونی مخالفت ختم کرنے کے بعد اپنے درباریوں پر برس رہا تھا۔ یہ مخالفت کی سب سے خطرناک قسم ہے۔ اگر قیادت مطیع ہو جائے تو پورا لشکر بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی مانند ہوتا ہے جس کا آسانی سے صفایا کیا جا سکتا ہے۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے اسی طرح کیا۔ انھوں نے ایرانی قیادت کو مرعوب کر دیا۔
Flag Counter