ساتھ۔‘‘ [1] ﴿ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ﴾ ’’دین میں کوئی جبر نہیں۔‘‘ [2] وہ صرف ان سرکش اور جابر حکمرانوں سے ٹکراتے تھے جو اپنے پیروکاروں کو دین حنیف قبول کرنے سے روکتے تھے اور اسلام کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرتے تھے۔ کیونکہ جب لوگ اللہ کے دین میں داخل ہو جائیں تو نہ کسی لڑائی کا جواز رہتا ہے اور نہ قتل و غارت کا، اس لیے کہ ان کے حقوق و فرائض بھی وہی ہوتے ہیں جو مسلمانوں کے ہیں۔ اگلے دن رستم نے سعد رضی اللہ عنہ کی طرف دوبارہ پیغام بھیجا کہ ہماری طرف اپنا قاصد بھیجیں۔ چنانچہ سعد رضی اللہ عنہ نے اس دفعہ حذیفہ بن محصن رضی اللہ عنہ کو ان کی طرف قاصد بنا کر روانہ کیا۔ وہ بھی پہلے قاصد کی طرح شانِ بے نیازی سے پہنچے اور اپنے گھوڑے سے اترے بغیر رستم کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ رستم نے ان سے کہا: گھوڑے سے نیچے اترو۔ انھوں نے جواب دیا: ’’میں ایسا نہیں کروں گا۔‘‘ رستم نے پوچھا: کل والا قاصد کیوں نہیں آیا؟ ان کا جواب تھا: ’’ہمارے امیر یہ پسند کرتے ہیں کہ سختی اور آسانی میں ہمارے درمیان عدل و انصاف کا برتاؤ کریں، اس لیے آج میری باری ہے۔ ‘‘ رستم نے سوال کیا: تم یہاں کیوں آئے ہو؟ |