ہے تا کہ اپنے بندوں میں سے جسے وہ چاہے اسے ہم دنیا کی تنگیوں سے آخرت کی وسعت و کشادگی کی طرف اور جملہ مذاہب کے ظلم و ستم سے اسلام کے عدل وانصاف کی طرف لے آئیں۔ اس نے ہمیں اپنا دین دے کر اپنی مخلوق کی طرف بھیجا ہے، پس جو شخص اس دین کو قبول کر لے گا تو ہم بھی اسے قبول کریں گے اور ہم وہاں سے واپس چلے جائیں گے، اسے اور اس کی زمین کو اُسی کے پاس رہنے دیں گے۔ اور جس شخص نے اس دین کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تو پھر ہم اس سے لڑائی کریں گے یہاں تک کہ ہم فتح مند ہو جائیں یا شہید ہو کر جنت میں پہنچ جائیں۔‘‘ رستم نے ان سے کہا: ہم نے تمھاری بات سن لی ہے، کیا تم اس معاملے کو کچھ دیر مؤخر کرتے ہو تاکہ ہم غور و فکر کر لیں۔ کسی انسان کو دین میں داخل کرنے کے لیے کوئی بھی مناسب طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ مسلمان تو انسانوں کو انسانوں کی بندگی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں داخل کرنے کے لیے پیدا ہوا ہے جیسا کہ ربعی بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا: ’’تا کہ ہم اللہ کے بندوں کو، جسے وہ چاہتا ہے، نجات دلائیں۔‘‘ وہی چاہتا ہے اور وہی ارادہ رکھتا ہے۔ اس جیسا نہ کوئی چاہ سکتا ہے، نہ کوئی ارادہ کر سکتا ہے۔ ﴿ ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ﴾ ’’دعوت دیجیے اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے |