جائے؟ اس شخص کے انتخاب کے لیے جو اس مشکل ترین اور اہم مہم کو سر کرنے پر قادر ہو، مسلمانوں کی مجلس شوریٰ کا اجلاس ہوا۔ ابھی زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ عبدالرحمن بن عوف بآواز بلند بول پڑے: اے امیر المومنین! میں نے وہ آدمی پا لیا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ کون ہے؟ عبدالرحمن نے کہا: وہ بار بار حملہ کرنے والا شیر سعد بن مالک ہے۔[1] اس وقت سعد رضی اللہ عنہ کہاں تھے؟ وہ تو اس وقت نجد میں صدقات کی وصولی پر مامور تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے 6 ہزار جنگجوؤں کا لشکر تیار کیا اور انھیں اس کا امیر مقرر کر دیا۔ اس لشکر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بہت بڑی جماعت شامل تھی۔ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی شریک تھے جو غزوۂ بدر میں حاضر ہوئے تھے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ’’جیش الفتح‘‘ کو رخصت کرنے نکلے اور لشکر کے سپہ سالار کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ اور ان سے فرمانے لگے: اے سعد! تمھیں یہ بات دھوکے میں نہ ڈال دے کہ تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ماموں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی کہا جاتا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں مٹاتا، البتہ اللہ تعالیٰ برائی کو اچھائی سے مٹا دیتا ہے۔ اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان کوئی رشتہ داری نہیں سوائے یہ کہ اس کی اطاعت کی جائے۔[2] |