تھے جو اس وقت کی بہترین جنگی چالوں کے ماہر تھے۔ مزید یہ کہ انھوں نے لڑاکے ہاتھیوں کے غول سے بھی مدد لی تھی۔ مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس قاصد بھیجا، وہ آپ رضی اللہ عنہ سے مدد بھی طلب کر رہے تھے اور عراق کے اطراف میں موجود مسلمانوں کے احوال سے بھی آگاہ کر رہے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں عجم کے بادشاہوں کو عرب کے سرداروں کے ذریعے ختم کر دوں گا۔[1] پھر انھوں نے لوگوں کو جہاد کے لیے پکارا۔ جب وہ ان کے پاس جمع ہو گئے تو یہ ان کے ساتھ مدینہ منورہ سے نکلے اور اس چشمے پر اترے جسے ’’ضرار‘‘ کہا جاتا ہے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے مطلوبہ سفر اور منزل کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے فرمایا: میں عراق کی طرف چلنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ اس بات پر اکثر لوگوں نے ان کی موافقت کی اور کہنے لگے: آپ چلیے، ہم بھی آپ کے ساتھ جائیں گے۔ لیکن سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اس بات سے اختلاف کیا کہ امیر المومنین بذات خود عراق جائیں۔ انھوں نے کہا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے کسی آدمی کو اپنی جگہ بھیج دیں اور اسے لشکروں کا سردار بنا دیں، اگر فتح حاصل ہو جائے تو ٹھیک ہے ورنہ آپ مزید لشکر تیار کریں اور دوسروں کو بھیج دیں۔ یہ بات دشمن کے غصّے میں اضافہ کرنے کا سبب بنے گی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا: وہ آدمی کون ہو گا؟ کسے یہ ذمہ داری سونپی |