آزمائش آ پڑی۔ اور مشرکین کی امیدیں ہری بھری ہونے لگیں۔ اس موقع پر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی بے مثال سرداری، ان کی ایمانی قوت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرنے کے لیے ان کے دل کی مضبوطی ظاہر ہوئی۔ وہ پہاڑ کی طرح ڈٹ کر کھڑے ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرنے لگے اور کینہ ور مشرکوں کے اچانک حملے کو روکنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پیچھے کھڑے ہو کر انھیں تیر پکڑاتے جاتے تھے، ان کا حوصلہ بلند کرتے تھے اور فرماتے تھے: ’اِرْمِ سَعْدُ! فِدَاکَ أَبِي وَأُمِّي‘ ’’اے سعد! تجھ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، تیر چلا۔‘‘ [1] سیدنا علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی اور کے بارے میں نہیں سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنے ماں باپ میں سے کسی ایک کو قربان کرنے والا جملہ کہا ہو لیکن أحد کے دن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’اے سعد! تیر چلا! تجھ پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔‘‘ [2] سیدنا سعد بن أبی وقاص رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی عائشہ رضی اللہ عنہا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور احسانات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کرتی تھیں کہ میں اس مہاجر کی بیٹی ہوں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماں باپ کو قربان کیا۔ میں سعد بن أبی وقاص رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہوں۔ [3] اے سعد رضی اللہ عنہ ! آپ پر تمام مسلمانوں کے ماں باپ قربان ہوں اور آپ کو مبارک ہو وہ جنت جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دی۔ کیا سعد رضی اللہ عنہ کی خدمات اس مقام پر موقوف ہو گئیں؟ نہیں، اللہ کی قسم! ان کی خدمات بڑھتی ہی رہیں۔ یہ غزوۂ خندق میں بھی شریک |