ان کا یہ سخت مقابلہ اور قتال کرنے میں سبقت لے جانا فخر اور غرور کی و جہ سے نہیں تھا، نہ وہ دولت اور مالِ غنیمت کے حصول کی کوشش کرتے تھے بلکہ ان کا ہر جوان صرف شہادت کی تمنا کرتا تھا۔ اب کہاں ہیں جہاد کے لیے نکلنے والے ہمارے جواں ہمت؟ سامراجی نظام نے ان کی شخصیتوں کو تباہ کر دیا اور جہاد کی روح کو ختم کر دیا اور انھیں نرم و نازک ہیجڑے بنا دیا یعنی وہ لذتوں کے شیدائی بن گئے ہیں، گانے والی عورتوں پر جھپٹتے ہیں اور ان پر فریفتہ ہوتے ہیں لیکن اُنھیں چُھو نہیں سکتے۔ وہ اپنے بالوں کو سنوارتے ہیں کہ کہیں انھیں خوشگوار ہوائیں منتشر نہ کر دیں۔ کیا اچھا ہوتا کہ آج اسلام کی سر بلندی کے لیے جواں ہمت لوگ سینہ سپر ہوتے۔ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدرسے کی یہ حالت تھی کہ نمازوں کے بعد مسجد کے صحن میں حلقے لگتے تھے جس میں مرد، نوجوان اور بچے اپنے استاد مکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد حلقہ بنا کر بیٹھ جاتے تھے۔ ایک دن اسی طرح لوگ جمع تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس دروازے سے تمھارے پاس ایک جنتی شخص آئے گا۔‘‘ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کی دلی تمنا تھی کہ کاش! اس دروازے سے داخل ہونے والا ہمارے گھر کا کوئی فرد ہو، پس اچانک سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اس دروازے سے داخل ہوئے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مجلس سے تشریف لے گئے تو سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہا نے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میری اور میرے باپ کی آپس میں کچھ رنجش ہو گئی ہے اور میں نے قسم کھائی ہے کہ میں تین راتیں ان کے پاس نہیں |