Maktaba Wahhabi

84 - 222
وہاں سے ذلیل لوگوں کو نکال دیں گے۔ اُسید رضی اللہ عنہ عرض کرنے لگے: اللہ کے رسول! بلکہ آپ جب چاہیں اسے مدینہ سے نکال سکتے ہیں۔ اللہ کی قسم! وہی ذلیل ترین ہے، آپ نہایت معزز و مکرم ہیں۔ پھر اسید رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ اس پر نرمی کریں۔ اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ کو ہمارے پاس لایا ہے (اور ہم آپ کی اتباع میں متحد ہوگئے ہیں) ورنہ اس کی قوم نے اس کے لیے موتیوں کا ایک تاج جڑا ہوا تھا جو وہ اس کے سر پر رکھنا چاہتے تھے، اس بنا پر وہ سمجھتا ہے کہ آپ نے اس کی سرداری چھین لی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو لے کر سارا دن چلتے رہے یہاں تک کہ شام ہوگئی۔ یہ رات بھی چلتے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی اور اگلے دن کا پہلا پہر بھی سفر جاری رکھا حتی کہ جب دھوپ ستانے لگی، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو پڑاؤ کا حکم دیا، پھر کیا تھا جیسے ہی لوگوں کے پہلو زمین سے لگے، سب گہری نیند سوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تدبیر اس لیے کی کہ لوگ عبد اللہ بن ابی والے کل کے واقعے کو بھول جائیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے منافقین کے بارے میں ایک سورت اتار دی۔ اس میں ابن ابی اور اس کے ساتھی منافقین کے نفاق سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔[1] جب سورۃ المنافقین اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کا کان پکڑ کر فرمایا: ((ہٰذَا الَّذِي أَوْفٰی لِلّٰہِ بِأُذُنِہٖ)) ’’اس (زید) نے اللہ کے لیے اپنے کانوں کو سچا کیاہے۔‘‘ [2]
Flag Counter