زید رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری باتیں بتادیں۔ اس وقت عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے۔ کہنے لگے: اللہ کے رسول! عباد بن بشر کو حکم دیں، وہ اس منافق کا کام تمام کردیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر! یہ کیونکر ہوسکتا ہے، لوگ باتیں کریں گے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم)اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرادیتے ہیں؟ میں یہ کام نہیں کروں گا، البتہ آپ لوگوں میں کوچ کا اعلان کردیں۔ یہ ایسا وقت تھا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر نہیں کیا کرتے تھے۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم سن کر چل پڑے۔ عبداللہ بن ابی کو پتہ چل گیا کہ زید بن ارقم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی ہے، لہٰذا وہ بھاگا بھاگا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اللہ کی قسمیں اٹھانے لگا کہ زید نے آپ سے جو کچھ کہا ہے، میں نے وہ باتیں نہیں کیں۔ عبد اللہ بن ابی اپنی قوم کا سردار تھا۔ اس کی عزت کی خاطر بعض انصار صحابہ نے جو اس وقت آپ کے ساتھ تھے، کہا: اے اللہ کے رسول! ہوسکتا ہے اس لڑکے (زید رضی اللہ عنہ)کو وہم لگا ہو اور وہ بات یاد نہ رکھ سکا ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے جارہے تھے کہ حضرت اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ آپ سے ملے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور عرض کرنے لگے: اے اللہ کے نبی! آج آپ ایسے وقت میں سفر کررہے ہیں جس میں آپ عموماً سفر نہیں کرتے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمھارے ساتھی نے جو باتیں کی ہیں کیا تمھیں ان کا علم نہیں ہوا؟ اسید رضی اللہ عنہ نے پوچھا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارا کونسا ساتھی مراد ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عبداللہ بن ابی ابن سلول۔ اسید رضی اللہ عنہ نے پوچھا: اللہ کے رسول! اس نے کیا کہا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا گمان ہے کہ اگر وہ مدینہ پہنچ جائے تو عزت والے لوگ |