ان کی سرکوبی کے لیے چل پڑے۔ چلتے چلتے مریسیع کے کنویں پر ان سے آمنا سامنا ہوگیا۔ لڑائی شروع ہوئی تو بنو مصطلق شکست کھاگئے۔ بعد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پانی کے ایک کنویں پر بھیڑ لگادی۔ اس دوران میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا غلام جہجاہ بن مسعود، عمر رضی اللہ عنہ کا گھوڑا لے کر آگیا۔ ادھر سے اسی وقت سنان بن وبرجہنی جو عوف بن خزرج کا حلیف تھا، سامنے آگیا اور دونوں میں لڑائی ہوگئی۔ سنان جہنی نے انصاریوں کو مدد کے لیے پکارا: اے انصاریو! اور جہجاہ نے مہاجرین کو آواز دی: اے مہاجرو! رئیس المنافقین ابن اُبی کو یہ سن کر غصہ آگیا۔ اس وقت اس کی قوم کے کچھ افراد اس کے ساتھ تھے۔ ان میں زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بھی تھے جو ان میں سے کم عمر تھے۔ عبد اللہ بن اُبی کہنے لگا: مہاجرین نے یہ حرکت کی ہے؟ حالانکہ انھوں نے ہم سے لڑائی کی ہے اور ہمارے علاقوں میں بھیڑ مچائی ہے۔ میں اپنی اور قریش (مہاجر مسلمانوں) کی مثال ایسے ہی سمجھتا ہوں جیسے سابقہ لوگوں نے کہا ہے: سَمِّنْ کَلْبَکَ یَأْکُلْکَ ’’کتے کو کھلا کر موٹا کرو تاکہ وہ تمھیں کھائے۔‘‘ اللہ کی قسم! اگر ہم لوٹ کر مدینہ گئے تو معزز ترین لوگ وہاں سے ذلیل ترین لوگوں کو نکال دیں گے۔ پھر وہاں موجود اپنی قوم کے لوگوں سے کہا: یہ تمھارے کیے کا نتیجہ ہے، تم نے انھیں (مہاجرین کو) اپنے علاقے میں ٹھہرایا اور انھیں اپنے مالوں میں شریک کیا۔ اللہ کی قسم! اگر تم ان پر خرچ کرنا چھوڑ دو یہ خود ہی دوسرے علاقوں میں چلے جائیں گے۔ زیدبن ارقم رضی اللہ عنہ نے یہ باتیں سن لیں اور سیدھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معرکے کے معاملات نپٹا کر ابھی فارغ ہوئے ہی تھے۔ |