Maktaba Wahhabi

66 - 222
والد کی وفات کے بعد عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کے صبح و شام پھر مسلمانوں کے ساتھ گزرنے لگے۔ ان کی ہر لڑائی اور صلح میں یہ ان کے شریک رہے اور مسلمانوں کے ساتھ مل کر اللہ کا دین دنیا میں پھیلاتے رہے اور روئے زمین پر اللہ کی توحید کا پرچار کرتے رہے۔ ایک رات عبد الرحمن رضی اللہ عنہ اپنی بہن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر رات کا کچھ حصہ گزار کر اپنے گھر لوٹ رہے تھے کہ راستے میں بعض پرانے ٹوٹے پھوٹے گھروں کے پاس کچھ لوگوں کو حلقہ بنائے بیٹھے دیکھا۔ وہ آپس میں سرگوشیاں کررہے تھے۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ ان کے قریب ہوئے اور قریب تھا کہ ان کی باتیں بھی سن لیتے،مگر ان کی شکلیں اور نام ضرور جان گئے۔ وہ تھے ابو لؤلؤ فیروز مجوسی، ہرمزان اور جفینہ۔ یہ لوگ عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کو دیکھتے ہی دوڑ پڑے اور ان سے دو شاخہ سیاہ خنجر زمین پر گر پڑا۔ عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سوچنے لگے کہ یہ لوگ مجھے دیکھتے ہی کیوں بھاگ کھڑے ہوئے، نیز یہاں کس مقصد کے لیے جمع ہوئے ہیں اور رات کے اس آخری پہر میں یہ لوگ کیا منصوبے بنا رہے ہیں؟ یہ چند سوال عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کے ذہن میں گردش کرنے لگے، مگر اس وقت ان کا جواب ان سے نہیں بن پارہا تھا۔ اس واقعے کو گزرے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کو اسلام سے برگشتہ اس باغی گروہ کے منصوبے کا پتہ چل گیا۔ ان کے اسی منصوبے کے نتیجے میں عمر رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا گیا۔ روایات اس بات پر متفق ہیں کہ عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما نے جن لوگوں کو رات کے اندھیرے میں سرگوشیاں کرتے
Flag Counter