دیکھا تھا، انھوں ہی نے عمر رضی اللہ عنہ کے قتل کی سازش تیار کی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے۔وہ بھی شہید ہوگئے تو حضرت علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے۔ جب ان کی شہادت بھی ہوگئی تو اب زمامِ حکومت حضرت معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہما کے ہاتھ آگئی۔ جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے یزید کی ولی عہدی کی بیعت لینی چاہی تو اس مقصد کے لیے مروان بن حکم سے بات کی جو اس وقت مدینہ کا گورنر تھا۔ مروان کو حکم دیا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی اولاد میں یزید کی ولی عہدی کا اعلان کردو۔ مروان نے اس حکم کی تعمیل میں اعلان کرایا کہ امیرالمؤمنین (معاویہ رضی اللہ عنہ)تمھارے لیے خیر ہی چاہتے ہیں۔ حضرت عبد الرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما کھڑے ہوکر کہنے لگے: اللہ کی قسم! مروان تو نے اور معاویہ رضی اللہ عنہ نے غلط بیانی کی ہے۔ تم دونوں نے امت محمدیہ کے لیے کوئی خیر کا کام نہیں کیا۔ تم تو ہرقلِیَّہ (بادشاہت) قائم کرنا چاہتے ہو، ایک بادشاہ مرجائے تو دوسرا اس کی جگہ آجائے۔ مروان نے کہا: یہی وہ شخص ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ہے: ﴿ وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَكُمَا ﴾ ’’اور جس نے اپنے والدین سے کہا: تم دونوں پر اُف (افسوس) ہے! ‘‘ [1] مروان کی یہ بات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سنی تو پردے کے پیچھے سے فرمایا: مروان! او مروان! لوگ عائشہ رضی اللہ عنہا کی آواز سن کر خاموش ہوگئے اور مروان عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف منہ کرکے کھڑا ہوگیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے دریافت فرمایا: تو نے عبد الرحمن سے کہا ہے |