Maktaba Wahhabi

65 - 222
سامنے آیا۔ اب مسیلمہ بھی اسی جگہ کھڑا ہونا چاہتا تھا جہاں تھوڑی دیر پہلے یمامہ کا چودھری کھڑا تھا۔ اس کے باہر نکلتے ہی حضرت وحشی رضی اللہ عنہ نے اس کے برچھا گھونپ دیا۔ انصار میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور تلوار سے اسے ٹھنڈا کردیا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: مسیلمہ کے لشکر سے ایک آدمی نے چیخ کر کہا: اسے ایک سیاہ غلام نے قتل کیا ہے۔ مسیلمہ کے قتل ہوتے ہی بنو حنیفہ شکست کھاکر بھاگ نکلے۔[1] حضرت عبد الرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما ہمیشہ اپنے قائد اور سپہ سالار کے فرمانبردار سپاہی بن کر رہے۔ وقت یوں گزرتا رہا یہاں تک کہ ایک دن قاصد نے آکر اطلاع دی کہ آپ کے والد محترم سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بیمار ہیں۔ وہ جلدی سے والد کے گھر پہنچے تو دیکھا والد محترم کی سانس اکھڑی ہوئی ہے اور انھوں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کا حکم دے رکھا ہے۔ عبد الرحمن رضی اللہ عنہ اپنے والد کے پاس آتے ہیں اور درخواست کرتے ہیں: ابا جان! کسی طبیب کو بلائیں؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: وہ میرے پاس آیا تھا اور مجھ سے کہاتھا: میں جو چاہوں گا کروں گا۔ عبد الرحمن رضی اللہ عنہ اپنے والد کا مقصد سمجھ کر خاموش رہے۔ پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ وفات پاگئے۔[2] اِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وصیت کی تھی کہ ان کی اہلیہ اسماء بنت عمیس اور بیٹا عبد الرحمن انھیں غسل دیں۔[3]
Flag Counter