ہے تو طرفین سے مقتولین اور شہداء گرنے لگتے ہیں۔ قریب تھا کہ مسلمان ہزیمت کا شکار ہوجائیں۔ مسلمانوں کی یہ حالت دیکھ کر حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مسلمانوں کی جماعت! تم نے اپنی جانوں کو بہت بری شے (آرام) کی عادت ڈال رکھی ہے۔ اے اللہ! ان لوگوں، یعنی اہل یمامہ نے جو کچھ کیا ہے میں اس سے بری ہوں اور اِن لوگوں، یعنی مسلمانوں نے جو کچھ کیا ہے، میں اس سے معذور ہوں، پھر وہ دادِ شجاعت دیتے ہوئے شہیدہوگئے۔[1] یہاں عبد الرحمن بن ابو بکر رضی اللہ عنہما اپنی بلند قامت، قاطع تلوار اور مضبوط دل کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں۔ انھوں نے دیکھا کہ یمامہ کا چودھری اپنے لوگوں میں کھڑا ان سے خطاب کررہا ہے، انھیں لڑائی اور ثابت قدمی کی ترغیب دے رہا ہے، ان کی کمر ہمت بندھا رہا ہے، ان کا مورال بلند کررہا ہے، ان سے عزت و ناموس اور عورتوں کی حفاظت کی استدعا کررہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ انھیں مزعومہ جنت اور چشموں کا وعدہ بھی دے رہا ہے جو مسیلمہ کذاب نے ان کے لیے تیار کیے ہیں۔ عبد الرحمن رضی اللہ عنہ نے یمامہ خبیث کے یہ کلمات سنے تو انھیں جوش آگیا اور سیدھااس کے سینے میں تیر پیوست کرکے اسے گرادیا اور تلوار اور نیزے کے وار کرکے اسے جہنم رسید کردیا۔ عبد الرحمن رضی اللہ عنہ نے ایک مضبوط آواز خاموش کرادی اور وہ نقارہ بند کردیا جو پامردی سے لڑنے پر ابھار رہا تھا۔ مسیلمہ کے چیلے اپنے آدمی (نائب مسیلمہ) اور دوسرے قائد کو کھوچکے تھے۔ جب وہ قتل ہوگیا تو مسیلمہ کذاب قبیح صورت میں مسلمانوں کے |