Maktaba Wahhabi

63 - 222
اس آواز نے گویا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے قدم جکڑ لیے تھے۔ مسلمانوں اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جنگ میں خاصے زخم آئے تھے۔ جنگ ختم ہوئی تو عبد الرحمن بن ابو بکر( رضی اللہ عنہما ) ایک مرتبہ پھر لشکر کفار کے ساتھ مکہ لوٹ گئے۔ معرکۂ احد کے بعد تاریخ خاموش ہے کہ عبد الرحمن ( رضی اللہ عنہ)کیا کرتے رہے، ان کے حالات کیا تھے۔ دور و نزدیک کی کوئی خبر نہیں۔ آئندہ پیش آنے والے معرکوں میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف میدان میں آئے یا نہیں؟ یا ان کے دل میں ایمان کی شمع روشن ہوگئی اور انھوں نے اسلام قبول کرلیا تھا؟ کوئی ٹھوس تاریخی ثبوت نہ ملتے ہوں تو آدمی پختہ جواب نہیں دے سکتا۔ تاہم حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو جو تنعیم سے عمرہ کرایا تھا، اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ان کے بھائی عبدالرحمن ہی کو بھیجا تھا۔[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد جب مرتدین کی سرکوبی کے لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لشکر اور دستے تیار کیے اور طے کیا کہ ہر اس گروہ اور فرد سے لڑائی ہوگی جس نے نماز اور زکاۃ میں فرق کیا۔ اس موقع پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا: ((وَاللّٰہِ! لَوْ مَنَعُونِي عَنَاقًا کَانُوا یُعْطُونَہَا لِرَسُولِ اللّٰہِﷺ لَقَاتَلْتُہُمْ عَلَیْہِ)) ’’اللہ کی قسم! اگر وہ بکری کا ایک بچہ بھی زکاۃ میں نہیں دیں گے جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ ادا کرتے تھے تو میں اس بنا پر ان سے لڑائی کروں گا۔‘‘ [2] مرتدین اور مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑائی کرنے والوں میں عبد الرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما کا نام ملتا ہے۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ جب میدانِ معرکہ میں اترتے ہیں اور معرکہ شروع ہوجاتا
Flag Counter