Maktaba Wahhabi

62 - 222
ان مشکل معاملات میں سے ایک یہ تھا کہ بعض صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہ اصرار کہا تھا کہ معرکہ مدینہ سے باہر میدان احد میں لڑاجائے۔ اسی طرح عبد اللہ بن ابی (رئیس المنافقین) تقریباً ایک تہائی لشکر کے ساتھ راستے سے مڑگیا تھا۔ تیسری مشکل یہ پیش آئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دامن میں ایک چھوٹی پہاڑی پر فوجی چوکی قائم کی اور اس پر پچاس تیر انداز مقرر کیے تھے۔ انھوں نے دنیا کے مال میں رغبت رکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کی۔ اس وقت کفار مکہ نے پیچھے سے آکر مسلمانوں پر حملہ کردیا اور صحابہ کفار کے درمیان پھنس گئے۔ اس آفت کی گھڑی میں جب صحابہ کرام پر سخت مصیبت ٹوٹی ہوئی تھی عبدالرحمن بن ابوبکر مشرکوں کی صفوں سے نکل کر بلند آہنگ للکارتے ہیں: کوئی ہے جو میرا مقابلہ کرے؟ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مشرک بیٹے کی للکار سن کر اس پر جھپٹنے کا ارادہ کرتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ اسے قتل کرکے ایک مشرک کا آوازہ اور ایک کافر کا نقارہ خاموش کردیا جائے۔ مگر آیندہ کے حالات کی کسے خبر کہ کیا ہوجائے؟ یہ بھی تو ہوسکتا ہے بیٹا باپ پر غالب آجائے اور اسے قتل کر ڈالے، اس لیے کہ جب دل ہی سیاہ ہو، اس میں ایمان و ہدایت کی روشنی نہ ہو تواسے کوئی پروا نہیں ہوتی کہ وہ کیا کرتا ہے، کیا نہیں کرتا۔ ایسے شخص کے لیے تو بہت آسان ہے کہ قرابت اور رشتہ داری کے تمام ناتے توڑ ڈالے۔ لیکن یہاں تو کچھ اور ہی ہونے جارہا ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے کانوں میں پیار اور شفقت بھری میٹھی زبان سے کانوں میں رس گھولتی آواز پڑی: ((شَمَّ سَیْفَکَ، وَ أَمْتِعْنَا بِکَ)) ’’اپنی تلوار میان میں ڈال لو اور اپنی جان کے ساتھ ہمیں فائدہ پہنچاؤ۔‘‘ [1]
Flag Counter