کھاتے ہیں اور اس کے نام کا پختہ عہد کرتے ہیں کہ ہم تمھیں قتل نہیں کریں گے۔
کیا کسی دھوکے باز سے کسی قسم کا عہد معاہدہ کیا جاسکتا ہے؟ کیا کسی مشرک سے قول قرار لیا جاسکتا ہے؟ ان لوگوں نے امانت میں خیانت کی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو دھوکا دیا تھا، لہٰذا ان سے کوئی معاہدہ اور قول قرار نہیں ہوسکتا، لہٰذا حضرت مرثد، عاصم بن ثابت اور خالد بن بکیر رضی اللہ عنہم دھوکے باز کافروں سے لڑائی پر متفق ہوگئے اور کہنے لگے: ہمیں کسی مشرک کے عہدوپیمان کی ضرورت نہیں۔[1]
عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ ایک بلند ٹیلے پر چڑھ گئے اور اپنی تلوار لہراتے ہوئے یہ شعر کہے:
مَا عِلَّتِي وَ أَنَا جَلْدٌ نَّابِلٌ
وَالْقَوْسُ فِیہَا وَتْرٌ عُنَابِلُ
تَزِلُّ عَنْ صَفْحَتِہَا الْمَعَابِلُ
وَالْمَوْتُ حَقٌّ وَّالْحَیَاۃُ بَاطِلٌ
وَ کُلُّ مَا حَمَّ الإِْلٰہُ نَازِلٌ
بِالْمَرْئِ وَالْمَرْئُ إِلَیْہِ اٰیِلٌ
إِنْ لَّمْ أُقَاتِلْکُم فَأُمِّي ہَابِلٌ
’’میرا کیا عذر ہے کہ میں نہ لڑوں جبکہ میں مضبوط نوجوان اور ماہر تیر انداز ہوں۔ میری کمان میں موٹی مضبوط تانت (ڈوری) لگی ہوئی ہے۔‘‘
’’اس سے تیر بڑی تیزی سے پھسل پھسل کر نکلتے ہیں۔ اور موت برحق شے
|