ہے جبکہ دنیا کی زندگانی تو باطل (ایک نہ ایک دن ختم ہونے والی) ہے۔‘‘ اللہ مالک الملک نے انسانوں کے جو مقدر کردیا ہے وہ ہوکر رہے گا۔ ہر آدمی اس کی طرف لوٹ کر جانے والا ہے۔‘‘ ’’اگر میں ان سے لڑائی نہ کروں تو میری ماں مرجائے! ‘‘ [1] اس کے بعد اللہ کے تینوں شیروں نے مشرکوں سے لڑائی کے لیے جست لگائی اور ان سے لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔ شہید ہونے والے یہ اصحاب مرثد بن ابو مرثد، خالد بن بکیر، اور عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہم تھے۔ قبیلۂ ہذیل کے لوگوں نے سیدنا عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ کا سر کاٹنے کی بڑی کوشش کی۔ وہ ان کا سر کاٹ کر سلافہ بنت سعد کے ہاتھ بیچنا چاہتے تھے کیونکہ جنگ احد کے دن سلافہ کے باپ کو عاصم رضی اللہ عنہ نے جہنم رسید کیا تھا۔ سلافہ نے نذر مانی تھی کہ اگر عاصم کا سر مل جائے تو میں اس میں شراب پیوں گی۔ کیا ہذیل عاصم رضی اللہ عنہ کا سر کاٹ سکے؟ نہیں! ہرگز نہیں! سیدناعاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ نے زندگی میں اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کیا تھا کہ نہ میں کسی مشرک کو چھوؤں گا اور نہ کوئی مشرک مجھے چھوسکے کیونکہ مشرک نجس ہوتا ہے۔[2] چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ولی اور دوست کی یقینی حفاظت فرمائی۔ اللہ تعالیٰ عاصم اور مشرکوں کے درمیان حائل ہوگیا۔ عاصم رضی اللہ عنہ شہید ہوکر جیسے ہی زمین پر گرے اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھیوں کا لشکر بھیج دیا۔ اس لشکر نے عاصم رضی اللہ عنہ کی لاش کا احاطہ کرلیا جس نے عاصم رضی اللہ عنہ کا مکمل دفاع کیا۔ |