اصمعی نے ابومعشر مدنی سے بیان کیا ہے کہ ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم اہل مدینہ کا دفتر لے کر عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی خدمت میں پہنچا۔ یہ قتادہ بن نعمان کی آل میں سے ایک شخص تھا۔
جب یہ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے پاس آئے تو انھوں نے پوچھا: آپ کا تعارف کیاہے؟ انھوں نے شعروں میں جواب دیا:
أَنَا ابْنُ الَّذِي سَالَتْ عَلَی الْخَدِّ عَیْنُہٗ
فَرَدَّتْ بِکَفِّ الْمُصْطَفٰی أَحْسَنَ الرَّدِّ
فَعَادَتْ کَمَا کَانَتْ لأَِوَّلِ أَمْرِہَا
فَیَا حُسْنَ مَا عَیْنٌ وَّ یَا حُسْنَ مَا رَدِّ
’’میں اس کا بیٹا ہوں جس کی آنکھ اس کے رخسار پر ڈھلک گئی تھی تو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بابرکت ہتھیلی کے ساتھ واپس اپنی جگہ پر رکھ دی گئی اور یہ کتنی خوبصورت واپسی تھی۔‘‘
’’وہ آنکھ پہلے جیسی ہوگئی تھی۔ یہ کس قدر خوبصورت آنکھ تھی اور یہ کس قدر خوبصورت واپسی تھی! ‘‘
اس کے جواب میں عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے فرمایا:
تِلْکَ الْمَکَارِمُ لَا قُعْبَانَ مِنْ لَّبَنٍ
شَیْبًا بِمَائٍ فَعَادَتْ بَعْدُ أَبْوَالًا
’’یہ پہلوں کے فضائل تھے، کوئی دودھ کا پیالہ نہیں تھا جس میں پانی ملا دیا گیا ہو،
|