اور ساتھ ساتھ فرمارہے تھے: ((اِرْمِ فِدَاکَ أَبِي وَ أُمِّي)) ’’سعد! کافروں پر تیر برسائیں، میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! ‘‘ [1] کبھی ایسا بھی ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ایسا تیر پکڑا دیتے جس کے پھل (لوہا) نہ لگا ہوتا مگر آپ یہی فرماتے: ’’اسے بھی کافروں پر برساؤ۔‘‘ سیدناقتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار لے کر مشرکین و کفار کے لشکر کو دُور بھگانے لگے حتی کہ انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہٹا دیا۔ اب تیروں کا رخ انھی کی طرف ہوگیا اور کفار کی تلواریں انھی کی طرف بلند ہونے لگیں حتی کہ ان کا جسم زخموں سے بھر گیا۔ انھوں نے ان تمام تکالیف کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں دی۔ احد کا یہ معرکہ انتہا کو پہنچا چاہتا تھا اور کفر کے لشکر بھاگنے کو تھے کہ قتادہ رضی اللہ عنہ کی آنکھ کا ڈیلہ باہر نکل آیا اور اس کا پانی رخسار پر ڈھلک گیا۔ قتادہ رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آئے اور عرض کرنے لگے: اللہ کے رسول! میری ایک بیوی ہے، مجھے اس سے بہت محبت ہے۔ میں ڈرتا ہوں کہ اگر وہ مجھے اس حالت میں دیکھ لے تو مجھ سے نفرت کرنے لگے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آنکھ کا ڈیلہ اپنے دست مبارک سے اس کی جگہ پر رکھ کر اس کے اوپر اپنا مبارک ہاتھ پھیردیا، پھر دعا کی: ((اَللّٰہُمَّ! اکْسِبْہَا جَمَالًا)) ’’اے اللہ! اس آنکھ کو خوبصورت بنادے۔‘‘ اس کے بعد ان کی آنکھ خوبصورت او رنظر تیز ہوگئی۔ [2] |