گھرانے نے دوسرے لوگوں کو بھی اس نئے دین میں شمولیت کی دعوت دینی شروع کردی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ لوگوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ آمد کی خوشخبری بھی سناتے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے انتظار میں دن آہستہ آہستہ گزررہے تھے۔ آخر ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خبر سنائی دی۔ قتادہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کے لیے اپنے اہل و عیال اور دوست احباب سمیت آنکھیں فرشِ راہ کیے ہوئے تھے۔ جب مسجد نبوی شریف کی تعمیر کا مرحلہ آیا تو سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ نے بھی مہاجرین و انصار کے ساتھ مل کر تعمیر میں حصہ لیا۔ یہی مسجد بعد میں ایک قلعے کی شکل اختیارکرگئی، اسی مسجد سے نامور اور بہادر لوگ تیار ہوتے تھے اور زندگی کے مختلف شعبوں کے پروگرام طے پاتے تھے۔ اسی مسجد میں نمازوں کا اہتمام ہوتا تھا اور لوگ دین سیکھتے تھے۔ مسجد ہی میں قتادہ رضی اللہ عنہ شریعت اور اصول دین کی تعلیم پاتے رہے۔ اسی مسجد میں اسلامی فوج کے دستے تیار ہوتے اور مسلمانوں اور کفار کے درمیان معرکوں کے امور کی تشکیل ہوتی تھی۔ ہجرت کے بعد اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری کے دن سے سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ اسلامی لشکر کے ایک بہادر سپاہی اور ایسے نامور شہسوار بنے جن کے مقابلے کی کوئی تاب نہ لاسکتا تھا، پھر وہ ایسے مومن صادق بنے جو ہر وقت شہادت کے طلب گار، دین کے مددگار اور کلمۂ توحید کی سر بلندی کے متمنی رہتے تھے۔ ان کے دل کی مراد برآئی اور رحمن کے لشکر اور شیطان کے پیروکاروں کے درمیان غزوۂ بدر کا پہلا معرکہ پیش آگیا۔ ایک مسلمان فوجی سے اس کا ایمان جو تقاضا کرتا ہے، قتادہ رضی اللہ عنہ نے وہ کردار بحسن و خوبی انجام دیا۔ اس معرکے میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور کفار شکست کے زخم چاٹنے پر مجبور ہوئے۔ |