سیدنا قتادہ کا ذکر مذکورہ حوالوں میں نہیں ہے۔ قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ابوالہیثم رضی اللہ عنہ کی یہ بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم فرماتے ہوئے کہا: ((بَلِ الدَّمُ الدَّمُ، وَالْہَدْمُ الْہَدْمُ، أَنَا مِنْکُمْ وَ أَنْتُمْ مِنِّي، أُحَارِبُ مَنْ حَارَبْتُمْ وَ أُسَالِمُ مَنْ سَالَمْتُمْ)) ’’بلکہ تمھارا خون ہمارا خون ہے، تمھاری جنگ ہماری جنگ ہوگی۔ میں تم سے ہوں اور تم مجھ سے ہو۔ میری اس سے لڑائی ہے جس سے تمھاری لڑائی ہے اور میری اس سے صلح ہے جس سے تمھاری صلح ہے۔‘‘ [1] یہ بابرکت بیعت جس میں اللہ کے نورانی فرشتے بھی حاضر ہوتے تھے، مکمل ہوگئی۔ اسلام کے داعیوں کا یہ قافلہ مدینہ منورہ واپسی کے لیے چل پڑا۔ سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ بھی قافلے کے ساتھ تھے۔ اب واپسی پر یہ پہلے والے انسان نہیں رہے تھے جو مدینہ سے نکلتے وقت تھے۔ انھوں نے اپنے نفس اور دل کو جاہلیت کی تمام بیماریوں حسد، کینہ اور خیانت سے پاک رکھنے کا خاص اہتمام کیا، نیز مال اور رزق کی تطہیر کا بھی خاص اہتمام کیا۔ ہمیشہ حلال مال حاصل کیا اور حلال ہی کھایا۔ ان کی نظر میں تمام انسان برابر تھے کیونکہ سب انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے۔ اس اصول کو مد نظر رکھا جائے تو حسب و نسب کے لحاظ سے کوئی شخص دوسرے پر فوقیت نہیں رکھتا۔ اسی طرح مال اور جاہ و جلال میں ایک دوسرے پر برتری بے معنی چیز ہے۔ ہاں ایک دوسرے سے ممتاز کرنے اور فضیلت دینے والی شے تقویٰ اور عمل صالح ہے۔ قتادہ رضی اللہ عنہ کی تبلیغ سے ان کی اہلیہ اور اولاد نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ اب پورے |