Maktaba Wahhabi

142 - 222
کے ساتھ مسجد ضرار گرانے اور اسے جلانے کے لیے بھیجا تھا۔ مالک بن دخشم رضی اللہ عنہ سچے مسلمان، مجاہد فی سبیل اللہ اور دین کے داعی تھے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مالک بن دخشم کا تذکرہ کیا تو ان کے بارے میں نازیبا الفاظ کہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي)) ’’تم میرے صحابہ کے بارے میں ناشائستہ زبان استعمال نہ کرو۔‘‘ [1] یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک مجاہد اور دین کے سچے داعی کی بیٹی اس طرح کے برے عمل کا ارتکاب کرسکتی ہے؟ خاص طور پر جب اس بچی کی تربیت ایمان، تقویٰ، جہاد اور شہادت کے متوالے گھرانے میں ہوئی ہو تو کیا وہ غلط کام کرے گی؟ ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کی اگراس بیوی کے ساتھ یہ واقعہ پیش نہیں آیا تو کیا پھر کوئی دوسری بیوی ہوگی۔ جی ہاں! ان کی ایک اور بیوی بھی تھی۔ اس کا نام ملیکہ تھا۔ اس کا باپ مدینہ کے منافقین کا سرغنہ عبد اللہ بن ابی ابن سلول تھا۔ اسی ظالم نے سیدہ طاہرہ صدیقہ بنت صدیق ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا پر جھوٹی تہمت لگائی تھی، پھر اس بہتان کی خوب تشہیر کی تھی۔ اس تہمت کے پیچھے اس کا مقصد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی عزت کو داغ دار کرنا تھا اور اسلامی تحریک کی اخلاقی حیثیت کو متأثر کرنا تھا۔ اسی ابن ابی نے بدکاری کے پیشے کے لیے بہت سی لونڈیاں رکھی ہوئی تھیں۔ وہ ان کی کمائی بھی کھاتا تھا۔ ان لونڈیوں میں سے ایک نے اسلام قبول کرنے کے بعد اس پیشے سے توبہ کرنی چاہی تو اس منافق نے اس پر تشدد کیا۔ وہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے
Flag Counter