Maktaba Wahhabi

143 - 222
پاس آئی اور عبد اللہ بن ابی کی شکایت کرنے لگی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اب لونڈی کو اپنے پاس رکھ لو، اسے واپس نہ جانے دینا۔ منافق کو پتا چلا تو وہ بہت سٹپٹایا اور بکواس کی: ہمیں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم)سے کون خلاصی دلائے گا، اس نے ہماری ملکیت کی چیزوں پر غلبہ پانا شروع کردیا ہے۔ (نعوذ باللّٰہ من ہفواتہ) اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل فرمادیا: ﴿ وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَنْ يُكْرِهْهُنَّ فَإِنَّ اللّٰهَ مِنْ بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَحِيمٌ﴾ ’’اور تمھاری لونڈیاں اگر پاک دامن رہنا چاہیں تو تم دنیاوی زندگی کا سامان تلاش کرنے کی خاطرانھیں بدکاری پر مجبور نہ کرو اورجو کوئی انھیں مجبور کرے تو بے شک ان کے مجبور کیے جانے کے بعد اللہ (ان کے لیے) غفور، رحیم ہے۔‘‘ [1] وہ تمام نصوص اور دلائل جو ہم تک پہنچتے ہیں، وہ یقین کے اس درجے تک نہیں پہنچتے کہ ہم حتمی فیصلہ کرسکیں کہ یہ گناہ عبد اللہ بن ابی کی بیٹی سے سرزد ہوا ہے یا کسی اور بیوی سے۔ حقیقت حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کے ساتھ کس شخص کو دیکھا تھا؟ کیا وہ کافر اور مشرکین میں سے کوئی فرد تھا یا اس کا تعلق منافقوں کے گروہ سے تھا جو بظاہر مسلمان ہوتے ہیں مگر ان کے دل کفر سے لبریز ہوتے ہیں۔ ان کی کیفیت گومگو کی سی ہوتی ہے، نہ یہ مسلمانوں کے ساتھ ہوتے ہیں نہ کافروں کے ساتھ۔ بہرحال
Flag Counter