کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب ہلال کو کوڑے مروائیں گے اور ان کی گواہی باطل قرار دیں گے۔ ادھر ہلال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! مجھے بہت امید تھی کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس آزمائش سے نکالے گا، لہٰذا انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے محسوس کیا ہے کہ میری خبر سے آپ کو ناگواری ہوئی ہے مگر اللہ جانتا ہے کہ میں سچا ہوں۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں کوڑے مارنے کا حکم دینے ہی والے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتار دی: ﴿وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللّٰهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ، وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَتَ اللّٰهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ ﴾ ’’اورجو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگائیں اور ان کے پاس اپنے سوا کوئی گواہ نہ ہوں، تو ان میں سے ایک کی شہادت اس طرح ہوگی کہ چار بار اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ بے شک وہ سچوں میں سے ہے۔ اور پانچویں بار یہ کہے: اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔‘‘ [1] ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ یہ حادثہ کب پیش آیا؟ غزوۂ تبوک سے پہلے یا بعد؟ نیز ان کی کس بیوی کے ساتھ یہ حادثہ ہوا تھا؟ غالب گمان یہی ہے کہ یہ واقعہ غزوۂ تبوک سے پہلے کا ہے کیونکہ تبوک کے موقع پر ہلال رضی اللہ عنہ بوڑھے ہوچکے تھے جن کے لیے چلنا پھرنا دو بھر تھا، نیز انھیں اس عمر میں عورتوں کی خواہش بھی نہیں رہی تھی جیسا کہ ان کی اہلیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کا اظہار کیا تھا۔ [2] دوسرا سوال یہ تھا |