تمھارے قریب نہ آئیں۔‘‘ ہلال رضی اللہ عنہ کی اہلیہ کہنے لگیں: وہ تو میرے پاس آنے کی طاقت ہی نہیں رکھتے۔ اللہ کی قسم! جب سے یہ جرم سرزد ہوا ہے وہ روتے ہی رہتے ہیں۔ اب تو مجھے ان کی بینائی ختم ہوجانے کا اندیشہ لگا رہتا ہے۔ [1] درحقیقت یہ تو رجوع اِلی اللہ اور توبہ کے آنسو تھے، یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ جانے اور جلدی عذر قبول نہ ہونے کے آنسو تھے، یہ تو نفس انسانی کا ایک فطری احساس تھا۔ انھوں نے محسوس کر لیا تھا کہ انھوں نے اپنے نفس، اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے رب کے حق میں غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ جب انھیں غلطی کا بھرپور احساس ہوگیا تو اللہ کریم نے ان کی توبہ قبول کرلی۔ بے شک وہی توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ لَقَدْ تَابَ اللّٰهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَحِيمٌ ، وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّى إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنْفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَنْ لَا مَلْجَأَ مِنَ اللّٰهِ إِلَّا إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا إِنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ﴾ ’’یقینا اللہ نے نبی اور ان مہاجرین و انصار پر مہربانی فرمائی جنھوں نے تنگی کی گھڑی میں آپ کی پیروی کی، بعد اس کے کہ ان میں سے ایک گروہ کے دل بہک جانے کو تھے، پھر اللہ نے ان پر مہربانی فرمائی۔ بے شک وہ ان پر بہت شفقت کرنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔ اور ان تین افراد پر بھی (مہربانی فرمائی) جنھیں (حکمِ الٰہی کے انتظار میں) چھوڑ دیا گیا تھا، حتی کہ جب زمین |