کے سامنے وہی بیان دیا ہے جو آپ نے دیا تھا اور ان سے وہی کچھ کہا گیا ہے جو آپ سے کہا گیا تھا۔ کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر میں نے پوچھا: وہ کون کون ہیں؟ لوگوں نے جواب دیا: مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ(رضی اللہ عنہما)۔ یہ دونوں نیک ہی نہیں بلکہ نیکی میں قابل عمل نمونہ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ہم تینوں سے کلام کرنے کی ممانعت فرما دی تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی بجا آوری میں ہم سے قطعاً کلام نہیں کرتے تھے۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ صحابہ ہمیں پہچانتے ہی نہیں۔ [1] سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اپنے حالات بیان کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں: جنگ تبوک سے پیچھے رہنے کی وجہ سے ہمیں جو مشکلات پیش آئیں، ان پر ہمیں چالیس دن گزر گئے۔ ایک دن اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ تم اپنی بیویوں سے علیحدگی اختیار کرلو۔ میں نے فوراً پوچھا: بیوی کو طلاق دے دوں یا کیا کروں؟ قاصد نے کہا: طلاق نہیں دینی، بس ان سے علیحدہ رہیں، قریب نہ جائیں۔ یہی پیغام میرے دوسرے دونوں ساتھیوں کو بھی ملا تھا۔ [2] میں نے اپنی بیوی سے کہا: اللہ کا فیصلہ آنے تک اپنے گھر والوں (والدین) کے پاس رہ لو۔ ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کو جب بیوی سے علیحدگی کا حکم ملا تو ان کی اہلیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی: اللہ کے رسول! ہلال بن امیہ بہت بوڑھے ہوچکے ہیں، ان کی خدمت کرنے والا بھی کوئی نہیں۔ کیا آپ ناپسند کرتے ہیں کہ میں ان کی خدمت بجالاؤں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تو چاہتا ہوں کہ ان کی خدمت کی جائے لیکن وہ |