زیادہ حصہ پر مشتمل ہیں۔‘‘ لیکن حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ اور ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کی حدیث اس قول کی بھی تردید کررہی ہے۔ اس لئے کہ ان دونوں حضرات کے درمیان قراء ۃ کا اختلاف ہوا،حالانکہ یہ دونوں قریشی تھے۔اور دونوں کی زبان ایک ہی تھی۔امام ابن الجزری رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ’’ہذہ الأقول مدخولۃ ،فإن عمر بن الخطاب وہشام بن حکیم اختلفا فی قراء ۃ سورۃ الفرقان کما ثبت فی الصحیح، وکلاہما قرشیان من لغۃ واحد وقبیلۃ واحدۃ۔ ‘‘ [1] ’’سات حروف کے بارے میں یہ اقوال اکثرو بیشتر ملتے جلتے ہیں۔ عمرفاروق رضی اللہ عنہ اور ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کے درمیان سورۃ الفرقان کی قراء ۃ میں اختلاف ہوا۔ جس کی تفصیل صحیح البخاری میں موجود ہے، حالانکہ یہ دونوں حضرات قریشی تھے۔دونوں کا قبیلہ بھی ایک تھا اور زبان بھی ایک تھی۔‘‘ اور امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ان تمام دلائل کے پیش نظر بہر حال یہ قول اس لائق ہے کہ اسے مسترد کر دیا جائے ، کیونکہ ، عمرفاروق رضی اللہ عنہ اور ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ دونوں قریشی ہیں ، زبان بھی ایک ہے اور قبیلہ بھی ایک ہے۔ ان کے درمیان قراء ۃ میں اختلاف ہوا۔ اگر سات حروف سے مراد سات مختلف قبائل کی لغات ہوتیں تو ناممکن تھا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کی لغت اختیار کرتے۔ تو ثابت ہوا کہ سات حروف سے قبائل ِعرب کی لغات مراد نہیں ہیں۔ ‘‘[2] اور امام ابن عبد البر رحمہ اللہ اس قول کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اکثر اہل علم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث: أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف |