Maktaba Wahhabi

122 - 132
میں سات حروف سے عرب کی سات لغات مراد لینے کو تسلیم نہیں کیا۔ اگر ایسا ہوتا تو آغاز ِاسلا م میں لوگ ایک دوسرے کی قراء ۃ کا انکار نہ کرتے۔اس لئے کہ ایک شخص اگر ایک لغت پر پل کر جوان ہوا ہے اور وہ لغت اس کی جبلت اور فطرت کا حصہ بن چکی ہے تو اس کے انکار کی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہیے۔ ‘‘ [1] امام ابو بکر باقلانی نے تو نہایت واضح الفاظ میں اس موقف کو غلط قرار دیا ہے ، لکھتے ہیں: ’’وقد زعم قوم أن معنی قول النبی:أنزل القرآ ن علی سبعۃ أحرف، أنہ منزل علی سبعۃ لغات مختلفات ، وہذا أیضاً باطل۔ ۔ والدلیل علی فساد ذلک علمنا بأن لغۃ عمر بن الخطاب وہشام بن حکیم ، أبی بن کعب ، وعبد اللّٰه بن مسعود ، وزید بن ثابت کلہا لغۃ واحدۃ ، وإنہا لیست لغات متغایرۃ ، وہم مع ذلک قد تنافروا وتناکروا القراء ۃ۔‘‘ [2] ’’بعض لوگوں نے یہ خیال ظاہرکیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان:’’قرآن کریم کو سات حروف پر نازل کیا گیا ہے۔ ‘‘کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کو عرب کی سات مختلف لغات پر نازل کیا گیا ہے۔یہ خیال بھی سراسر باطل ہے۔ اس کے باطل ہونے کی دلیل تاریخ کی یہ حقیقت ہے کہ عمر بن خطاب ، ہشام بن حکیم ، ابی بن کعب ، عبد اللہ بن مسعود اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم کی لغات ایک دوسرے سے مختلف نہیں تھیں ، بلکہ سب کی ایک ہی زبان تھی۔اس کے باوجود انہوں نے ایک دوسرے کی قراء ۃ سے اختلاف کیا۔‘‘ ۳:… تیسرا قول یہ ہے کہ سبعۃ احرف سے کسی کلمہ میں مترادف الفاظ کی سات
Flag Counter