قراء ۃ حروفہ ، وقد ظن کثیر من العوام أن المراد بہا القراءات السبع وہو جہل قبیح۔ ‘‘ [1] ’’سبعہ احرف کے بارے میں اکثر توجیہات اور اقوال باہم ملتے جلتے ہیں۔ اور میں نہیں جانتا کہ ان کا ثبوت اور صداقت authnticity کیا ہے ؟اورنہ یہ معلوم ہے کہ یہ اقوال کن لوگوں سے نقل کئے گئے ؟نیز ان میں متعددایسی چیزیں جن کا حقیقی مفہوم جاننا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔اور ان میں سے اکثر اقوال صحیح بخاری میں منقول عمرفاروق رضی اللہ عنہ اور ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کی حدیث سے متعارض اور متصادم ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ ان دونوں حضرات کے درمیان اختلاف قرآن کی تفسیر اور احکام میں نہیں ، بلکہ حروف کی قراء ۃ میں ہوا تھا۔ اور اکثر لوگوں کا یہ خیال کہ سات حروف سے مراد سات قراء ات ہیں ، بدترین جہالت ہے۔‘‘ ۲:… دوسرا قول یہ ہے کہ مذکورہ حدیث میں سبعہ احرف سے مراد سات قبائل عرب کی سات لغات ہیں جو پورے قرآن میں بکھری ہوئی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن کا کچھ حصہ لغت ِ قریش میں نازل ہوا تو کچھ حصہ قبیلہ ہذیل کی زبان میں ، کچھ قبیلہ ہوازن کی لغت میں اور اسی طرح دیگر قبائل ِعرب کی زبان میں ، تاکہ ہر قبیلہ اسے اپنی لغت کے مطابق پڑھ سکے۔اس موقف کو امام ابوعبید ، امام ازہری اور ابن عطیہ رحمہم اللہ نے اختیار کیا ہے۔چنانچہ امام ابو عبید رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر کلمہ کو سات لغات کے مطابق پڑھا جا سکتا ہے۔ بلکہ پورا قرآن سات لغات میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ بعض لغت ِ قریش میں ہے تو بعض لغت ہذیل میں۔ بعض لغت ہوازن میں نازل ہوا ہے تو بعض اہل یمن کی لغت میں وغیرہ وغیرہ۔لیکن سب میں برابر نہیں ، بلکہ بعض لغات قرآن کے |