کے ضمن میں با معنیٰ بنایا جائے اور مسلمان خواتین کی ترقی کے لیے 1400 سال پرانے دور خیرالقرون کے اسلامی معاشرے یعنی دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال کو جدید دور میں زندہ کیا جائے۔ [1] اس کانفرنس کی صدارت صدرِ پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے کی۔اس کانفرنس میں عورتوں کے حقوق اور اسلامی احیا کے حوالے سے اجتہاد کی اہمیت پر زور دیاگیا اور نوجوانوں کے ذہن سے اسلامی اور سائنسی تصورات پر مبنی ذہنی تضادات کو دور کرنے کی ضرورت اُجاگر کی گئی۔ اور اسلامی تعلیمات کو نوجوان مسلمان عورت کے لیے عام کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی اور اس کے لیے مختلف سہولتوں اور ترغیبات کے لیے بھی قراداد پاس کی گئی۔ [2] اس کانفرنس کے موقع پر جنرل محمد ضیاء الحق نے قرآن اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عورتوں کے حقوق سے قبل عورتوں کے فرائض اور ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔ اور آنے والی صدی کو اسلامی اِحیا کے لیے اہم وقت ٹھہرایا اور اسلامی احیا میں پاکستان کے کردار کی اہمیت پر زور دیا اور عورتوں کے حقوق کی بہتری کے لیے دانشوروں سے آرا طلب کیں۔ [3] بعد ازاں پاکستان میں اسلامی ذہن رکھنے والی عورتیں دنیا بھر کی مسلمان خواتین کے لئے ایک نمائندہ عالمی فورم تشکیل دینے کے لئے بھرپور کوشش کرتی رہیں۔اس غرض سے سوڈانی، مصری اور ملائشیا کی خواتین سے مسلسل رابطے جاری رکھے۔ جولائی، اگست 1996ء میں سوڈان کے دارالخلافہ خرطوم میں خو اتین کی ایک اور عالمی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ یہ غالباً اس سلسلے کی چوتھی کانفرنس تھی۔ خرطوم کی نمائندہ خواتین کا لاہور کی متحرک اسلامی رہنما آپا نثار فاطمہ سے بارہ سالوں سے رابطہ تھا۔ اس دوران نثار فاطمہ تو دارِ فانی سے کوچ کرگئیں، مگر سوڈانی خواتین انہی خطوط پر چل کر 1997ء میں مسلم خواتین کا عالمی فورم قائم کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ خواتین کے اس عالمی فورم کا نام: ’’اتحاد النسائي العالمي للمرأة المسلمة‘‘ (The international Movement of Muslim Women)تھا۔70 مسلم ممالک کی خواتین اس میں شامل تھیں۔ سوڈان کی مذہبی طور پر متحرک جدید تعلیم یافتہ خاتون کو فورم کا جوائنٹ سیکرٹری بنایا گیااور اسلامی افکار کے دفاع کے لیے مالیزیا کی ایک متحرک مسلم خاتون کو چیئر پرسن منتخب کیا گیا۔ اس کا ہیڈکوارٹر خرطوم میں ہے۔ اس فورم کا ہدف خواتین کے حقوق کے لئے جدوجہد کرنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بیجنگ کانفرنس نے ایک لولی لنگڑی تہذیب کا مکروہ رخ دنیا کے سامنے پیش کردیاہے۔ یواین او خواتین کے مسائل حل نہیں کر سکتی، خواتین کے حقوق کا ضامن اسلام اور صرف اسلام ہے۔ یورپی دنیا کی خواتین کی فلاح و بہبود اور خصوصاً مسلمان عورت کے حقوق کا تحفظ اور |