Maktaba Wahhabi

93 - 117
شرف و مجد کی قدر صرف دامن اسلام میں پناہ لینے میں ہے۔ فکری وسماجی تبدیلیوں کے عورتوں پر اَثرات مسلم ممالک میں سماجی اور فکری تبدیلیوں کی بدولت مسلمان عورتوں نے اپنی معاشرتی زندگی میں متعدد قسم کے رویوں کااظہار کیا۔ مسلمان اسلام کو بطورِ نظام حیات لیتے ہیں اور اپنی پوری زندگیوں کو اس نظامِ حیات کے تابع کرنے کو اپنی سعادت جانتے ہیں۔اپنی زندگی کو اسلامی نظام کے تابع کرنے کی خواہش کی بدولت اُنہوں نے خود کو مسلمانوں کے موجودہ اسلامی کلچر سے باندھا۔مغربی یلغار کے رد عمل میں وہ اسلامی نظامِ حیات اور موجودہ اسلامی کلچر میں فرق نہ کر سکے۔ مسلم ممالک میں ان ہمہ جہتی تبدیلیوں کی بدولت مذہب اسلام بطورِ سیاسی نظریے کے اُبھرا ،جس سے مختلف فرقوں کے مختلف مفادات وابستہ تھے۔ مذہبی اختلافات عام ہوئے، فرقہ واریت عروج کو پہنچی۔ مسلم ممالک میں انتشار اور انارکی بڑھ گئی۔اختلاف وانتشار کو سرد کرنے کے لیے امن کی راہ مذہب سے دوری میں ڈھونڈی جانے لگی۔ مسلمان جو مذہب کے نام پر متحد نہ ہوسکے، سیکولرازم کی چھتری تلے متحد ہونے لگے۔ [1] اسلام اور عورتوں کے حقوق سے متعلق بہت سی غلط فہمیاں اور شبہات جنم لینے لگے جنہیں مغربی مفادات نے ہوا دی۔ مسلمان پر یشان ہوکر منفی اندازِ دفاع اختیار کرنے پر مجبور ہوتے گئے۔ اسلامی تعلیمات کے ایجابی پہلو دبتے گئے اور اسلام بطورِ جبر کے ہتھیار کے عام ہونے لگا۔ مسلمانوں میں مغرب سے مقابلے کے جذبات مچلنے لگے۔ مسلمان عورتوں کی بے چینی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی۔ ان کے ذہنوں میں نظریاتی کشمکش برپا رہنے لگی۔ تعلیم یافتہ مذہب کے بارے میں متشکک خواتین اسلام کو فرسودہ قرار دے کر نئی راہیں کھوجنے نکل کھڑی ہوئیں۔ اُنہوں نے اپنے شک کو اسلامی یقین کی طرف لوٹانے کی بجائے مذہب کے حاملین کو ترقی مخالف اور عورت دشمن قرار دے دیا۔ سامراجی نظامِ تعلیم نے نوجوان مسلمان عورت کو یہ ذہن نشین کرایا کہ عورتوں کا مفاد اسلام سے دور رہنے میں ہے۔ اس نے مغرب کے پیش کردہ بنیادی انسانی حقوق کو عورتوں کے لئے آزادی کی منزل قرار دیا اور یہ دعویٰ کیا کہ اسلام کی افادیت وقت کے ساتھ ختم ہوچکی ہے۔ اب اس میں کوئی معنویت باقی نہیں رہی۔ یہ فرسودہ اقدار پنی قدر و منزلت کھوچکی ہیں۔[2] اُنہوں نے نوجوان مسلمان عورت کو بتایا کہ انسان ہونے کے ناطے وہ آزاد ہے۔ وہ اپنی زندگی اور آزادی سے محظوظ ہونے کا پورا حق رکھتی ہے۔ جیسے یہ حق کسی ایک مرد کو ملتا ہے، ویسے ہی وہ بھی حقدار ہے۔وہ اپنا جداگانہ تشخص برقرار رکھنے کا حق رکھتی ہے۔ کوئی اس کے اس حق کو چیلنج نہیں کرسکتا ہے۔ [3]
Flag Counter