Maktaba Wahhabi

89 - 117
ضامن ہو۔ عورتوں کے لئے نسوانی دائرہ کار کی تعلیم اور طبقہ حقوقِ نسواں کے مقاصد باہم متضاد ہیں۔ نسوانی دائرہ کار کی تعلیم میں یہ فقط ضبط ِولادت کو اہمیت دیتے ہیں اور اُسی کی تعلیم کو مسلمان عورتوں میں عام کرنا چاہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حقوقِ نسواں کی حامی خواتین کو خواتین یونیورسٹی کے قیام سے توصنفی امتیاز او رایک خاص طبقے سے خصوصی سلوک کا شکوہ ہے، لیکن نسوانی حقوق کی علم بردار ان خواتین کو نہ تو ملازمتوں میں خواتین کے مستقل کوٹے سے کسی صنفی امتیاز کی بو آتی ہے اور نہ ہی خواتین کے لئے مستقل سیاسی نشستوں سے کوئی خصوصی سلوک پروان چڑھتا نظر آتا ہے۔ یہ دو طرفہ رویہ حقوقِ نسواں کی خواتین کی ثنویت او ردو رخے پن کی دلیل ہے۔ 1990ء میں پاکستانی خواتین وفد تیسری عالمی خواتین کانفرنس جو کوپن ہیگن میں ہوئی، میں شریک ہوا۔ 1990ء میں ہی پاکستان نے( ) (عورتوں کے خلاف ہر قسم کے امتیاز کے خاتمہ کے لئے عالمی کنونشن) کی دستاویز پر بھی دستخط کئے۔ یہ دستاویز عورتو ں کے موضوع پر( ) کی تیس سالہ کوششوں کا نتیجہ تھی۔ ایسے ہی 1994ء میں آبادی اور ترقی کے موضوع پر ہونے والی کانفرنس جو قاہرہ میں منعقد ہوئی اس میں بھی پاکستان نے شرکت کی۔ ستمبر 1995ء میں بیجنگ میں خواتین کی چوتھی عالمی کانفرنس ہوئی۔ اس کانفرنس کا ایجنڈا ()اور قاہرہ کی بہبودِ آبادی کانفرنس کے نتیجے میں تیار ہوا تھا، اس وقت بے نظیر بھٹو پاکستان کی وزیر اعظم تھیں، چنانچہ اُنہوں نے بھرپور تیاری کے ساتھ اس کانفرنس میں شرکت کی اور وہاں ایک اہم اجلاس کی صدارت کا اعزاز بھی حاصل کیا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سربراہ ہونے کے ناطے برضا و رغبت اس پر دستخط ثبت کئے۔ [1] ستمبر 1994ء میں پاکستانی سینٹ کی ایک قرارداد کے ذریعے ایک ’خواتین انکوائری کمیشن‘ قائم کیا گیا، جس کا مقصد پاکستانی خواتین کے بارے میں کتاب و سنت کی روشنی میں مؤثر سفارشات تیارکرنا تھا۔ اس کمیشن نے 180صفحات پر مشتمل رپورٹ 1997ء میں پیش کی۔ اس کی سفارشات کیا تھیں، دراصل یہ بیجنگ کانفرنس کے اقوام متحدہ کے دیئے ہوئے ایجنڈے کو بروے کار لانے کا ہی ایک ذریعہ تھیں۔اس کمیشن کے گیارہ ممبر تھے۔ بحیثیت ِمجموعی اس کی سفارشات درج ذیل ہیں: ۱۔ حدود کے قوانین کو ختم کیا جائے اور وفاقی شرعی عدالت کو بھی ختم کیا جائے۔ ۲۔ عورت اور مرد کے درمیان ہر قسم کے صنفی امتیاز کا خاتمہ کیا جائے۔ ۳۔ خاوند کی موت کی شکل میں بہو کو جائیداد میں اتنا حصہ دیا جائے جو کہ اس کا شوہر اگر زندہ ہوتا تو اس کو ملتا۔ ۴۔ عورت کی وراثت مرد کے مساوی کی جائے، اسی طرح پنشن میں بھی عورت کا حصہ مرد کے مساوی کیا جائے۔ ۵۔ سولہ سال سے کم عمر میں بچی کی شادی کرنے پراس کے ولی کو تین سے پانچ سال تک قید اور جرمانہ کی سزا دی
Flag Counter