اُنہوں نے اخباری پروپیگنڈے، مذاکروں، قراردادوں کے ذریعے سے حکومت پر دباؤ ڈالا کہ وہ خواتین کا دیت اور شہادت والا قانون تبدیل کرے۔بے نظیر بھٹو نے بھی حدود آرڈیننس کے خلاف پروپیگنڈا کیا۔ بعض نے کہا کہ ہمیں وہ قرآن نہیں چاہئے جو عورت کو آدھی شہادت کا مقام دیتا ہے، ہمیں وہ قرآن چاہئے جو ہمیں مساوات دے۔ ہمیں بہرحال مساوی حقوق چاہیں، وگرنہ ہمیں ایسے قرآن و حدیث کی کوئی ضرورت نہیں۔ پھر ان خواتین نے خود مجتہد بن کر عورتوں کے لئے قرآن وحدیث سے مساوی حقوق برآمد کرنے کی ٹھانی۔ [1] طبقہ نسواں سے وابستہ خواتین قرآن مجید کے ناظرہ پڑھنے کی اہلیت نہ رکھتے ہوئے بھی قرآنِ مجید کی تفسیر کے میدان پر حملہ آور ہوگئیں۔ ایڈووکیٹ عاصمہ جہانگیر نے علی الاعلان کہا: ’’اگر ہماری دیت آدھی ہے، ہماری شہادت آدھی ہے تو پھر نماز بھی ہم آدھی پڑھیں گی، روزے بھی آدھے رکھیں گی۔ حج بھی آدھا کریں گی اور تمام اسلامی احکامات بھی ہمارے لئے آدھے ہوں گے۔‘‘ [2] عاصمہ جہانگیرنے مزیدکہا کہ ’’ اگر مرد چار شادیاں کرسکتے ہیں تو عورت چار شوہر کیوں نہیں۔ ‘‘[3] 1988ء میں انتخابات کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو (متوفیٰ 2007ء) سربراہِ حکومت بنی۔ ایک مستقل وزارت (Ministry of Women) کے نام سے قائم کی گئی۔ اس دور میں خواتین کے الگ بینک قائم ہوئے۔ الگ تھانے قائم ہوئے، عدلیہ میں بھی خواتین جج مقرر ہوئیں۔ تمام سرکاری ملازمتوں میں خواتین کا مستقل کوٹہ مقرر ہوا۔ مگر اس دور میں خواتین کے لئے الگ یونیورسٹی نہ بن سکی، کیونکہ طبقہ نسواں اختلاطِ مردوزن کا حامی تھا۔ وہ زنان خانے اور مردان خانے کی علیحدگی کا تو حامی ہی نہیں تھا۔ اگر ان کا مقصد محض عورتوں کی ترقی اور عورتوں کے حقوق کا تحفظ ہوتا تو یہ طبقہ خواتین یونیورسٹی کا حامی ہوتا۔ اس وقت پاکستان میں اسلامی جمعیت طالبات نے خواتین یونیورسٹی کی ضرورت کے لئے آواز اُٹھائی۔ طبقہ نسواں کا موقف یہ تھا کہ خواتین یونیورسٹی سے عورت کے خلاف صنفی امتیاز مستحکم ہوتا ہے۔ خواتین یونیورسٹی میں ان کو نسوانی قسم کے مضامین پڑھائے جائیں گے جو عورتوں کو سائنسی سوچ اور جدید علوم سے دور رکھنے کی علامت ہے۔ اس طرح ان پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند ہوجائیں گے۔ طبقہ حقوق نسواں عورتوں کی مغربی تعلیم کا انتہائی حامی ہے۔ لیکن ان کے نزدیک تعلیم صرف وہی معتبر ہوگی جو مردانہ دائرہ کار کی ہے اور عورتوں پر معاش کے دروازے کھولے اور عورت کے لئے گھر سے باہر دلچسپی کی |