1962ء میں ’اپوا‘ انجمن نے صدر ایوب (متوفیٰ 1974ء) سے عائلی قوانین منظور کرائے۔ عائلی قوانین کی منظوری کے دوران ایک بار پھر طبقہ نسواں اور مذہبی طبقہ باہم صف آرا ہوئے۔ مذہبی طبقے کا یہ موقف تھا کہ یہ قوانین قرآن اور سنت سے متصادم ہیں اور طبقہ نسواں کا یہ موقف تھا کہ مغربی معاشرتی نظام ہی قرآن و سنت کے منشا کو صحیح طور پورا کرتا ہے۔ طبقہ نسواں نے اپنے موقف کی تائید میں قرآن و سنت کی تاویلیں کیں اور تاریخ کی کامیاب مثالوں کے ذریعے حقوقِ نسواں کی تعبیر نو کے پودے کو پانی دیا۔ مسلمانوں کےعائلی قانونِ زندگی کا نام انگریزی دورِ حکومت میں ’مسلم پرسنل لاء‘ تجویز کیا گیا۔ یعنی مسلمانوں کے وہ مسائل جن کا تعلق شادی بیاہ، نکاح ، طلاق، وراثت، وصیت اور فسخ و تفریق وغیرہ سے ہے۔ یہ قانون صرف مسلمانوں سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کا غیر مسلموں اور ملک کے دوسرے مذہب کے باشندوں سے قطعاً کسی قسم کا تعلق نہیں تھا۔[1] پاکستان اپنے قیام کے فوراً بعد ہی( UNO )کا ممبر بن گیاتھا۔ لہٰذا اس دوران عورتوں کے حقوق کے نام پر منعقد ہونے والی تمام کانفرنسوں میں باقاعدہ پاکستانی خواتین کے وفد شریک ہوتے رہے اور پاکستان میں پھلنے پھولنے طبقہ نسواں اور مذہبی طبقہ کے مابین کشمکش کے لئے رہنمائی اور لائحہ عمل ترتیب دیتے رہے۔ پاکستان کے عائلی قوانین بھی حقوقِ نسواں کے عالمی ایجنڈے سے مطابقت کی کوششوں کا ہی سنگ ِمیل تھے۔ ان ہی کاوشوں کے زیر اثر 1973ء میں عورتوں پر تمام سرکاری ملازمتوں کے دروازے کھل گئے اور عورتوں کے لئے مکمل مساوات کا نظریہ ترتیب دیا گیا۔ اس دور میں عورتوں کی معاشی جدوجہد کے ساتھ ساتھ ضبط ِولادت کی تحریک کو بھی مقبول بنانے کے لئے طبقہ نسواں نے بہت کوششیں کیں۔ 1975ء میں میکسیکو کی عالمی کانفرنس میں شرکت کے بعد پاکستان میں کئی خواتین تنظیمیں غیر سرکاری طور پر وجود میں آئیں اور مغربی ایجنڈے کے طور پر پاکستانی خواتین کو بے حجاب اور مردانہ تحفظ سے آزادی دلوانے میں مصروف رہیں۔ ’اَپوا‘ کی تنظیم جو قیامِ پاکستان کے بعد وجود میں آئی تھی اور سرکاری سرپرستی میں چل رہی تھی، اب وہ مزیدسے مزید مضبوط ہوتی جارہی تھی اور اس کی مذہب دشمنی بھی وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ واضح اور بین ثبوت حاصل کرتی جارہی تھی۔ پھرجب صدر ضیاء الحق نے اپنے دورِ حکومت میں اسلامی نظام کی طرف پیش قدمی کرنا چاہی اور 1979ء میں حدود آرڈیننس کا اِجرا کیا، قانونِ دیت و شہادت پاس کئے گئے، سرکاری دفاتر میں عورتوں کو ساتر لباس اور چادر کا پابند کیا گیا، نیز ان پر برسرعام کھیلوں میں حصہ لینے سے روک دیا گیا تو حقوقِ نسواں کے داعی اس اقلیتی گروہ نے ضیاء الحق کے ان تمام اقدامات کے خلاف بھرپور احتجاج کیا اور حکومت کے ہر سطح کے اقدام کی پرزور مخالفت کی۔ |