Maktaba Wahhabi

86 - 117
والی گرانٹ بھی ہتھیانے کی کوششیں کیں اور چیریٹی شو کے نام پر فحش پروگرام شروع کیے ۔ امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ پاکستان میں تحریک ِآزادی نسواں کی سرکردہ خواتین نے مینا بازار کے نام پر جو پردہ شکنی کی تحریک اور جنسی جذبات کو اشتعال دینے والے اُمور شروع کررکھے ہیں آپ دیکھیں گے کہ ایک جنسی جذبہ کے سوا اس قوم کے دوسرے جذبات بالکل مردہ ہوجائیں گے۔ یہاں تک کہ اگر آپ مسجد بنانے کے لئے بھی چندہ مانگیں گے تو وہ تب تک آپ کو چندہ نہیں دیں گے جب تک آپ اُس کو مینا بازار کی سیر نہ کرائیں۔‘‘ [1] ان بیگمات کی بھرپور مدد پریس اور ترقی پسند دانشوروں نے کی۔ اور یہ صورت حال پیش آئی کہ ہر جگہ اشتہار میں عورتوں کی نیم برہنہ تصاویر، ٹی وی، وی سی آر میں ہر جگہ ناچتی تھرکتی عورت میڈیا اور لٹریچر میں ہر جگہ نمودار ہونے لگی۔ پھر تو پاکستان میں مذہب مخالف فکر کا رجحان اور شدت پکڑنے لگا اور علیٰ الاعلان یہ بھی کہا جانے لگا کہ ہم اب تک جس انداز اور جن زاویہ ہائے نگاہ سے اپنی زندگی کے معاملات پر غور کرتے رہے ہیں، اب آزادی کے حصول کے بعد ان میں تبدیلی کرنی پڑے گی اور اگر یہ تبدیلی اختیار نہ کی گئی تومصطفی کمال کی طرح جبراً یہ تبدیلی کرائی جائے گی۔ 1950ء میں لاہور کے ایک روزنامے نے اپنے ادارئیے میں لکھا: ’’عورتوں کی آزادی یا پردہ، نقاب پوشی کے سوال پر فرنگی اقتدار کے دور میں ہم جس انداز اور جن زاویہ ہائے نگاہ سے بحث کرتے رہے ہیں، اب اس میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے، ورنہ ہماری معاشرت میں وہ توازن وہم آہنگی اور وہ تناسب ویک رنگی پیدا نہ ہوسکے گی جس کے بغیر قوموں کی سربلندی محال ہے۔‘‘ [2] انہی دِنوں راولپنڈی کے جریدہ میں ایک خط چھپا جو طبقہ نسواں کے دل کی آواز بن گیا : ’’آج مسلمان عورتوں کی مثال اس قیدی کی طرح ہے جو مدتوں قید میں رہنے کے بعد اس کوٹھڑی سے ہی محبت کرنے لگ جاتا ہے جس میں وہ بند رکھا گیا ہے۔ ہاں میں جانتا ہوں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا پردہ کرتی تھیں مگر مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ قائد اعظم کی بہن فاطمہ ایسا نہیں کرتی اور یہی (مؤخر الذکر فاطمہ کا) طریقہ صحیح ہے، کیونکہ ہمارا ملک دوسرا ہے، ہماری دنیا دوسری ہے۔ ہمارے حالات دوسرے ہیں اور یہ سب کچھ اُس سے مختلف ہے جو تیرہ سو سال پہلے تھا۔ بالکل بے تکے پن سے قدیم زمانہ سے جواز تلاش کرنے کا رجحان صرف احمقانہ ہی نہیں بلکہ خطرناک بھی ہے۔ اس کا نتیجہ سماجی جمود اور ذہنی پستی ہے۔‘‘ [3] 1954ء میں بیگم رعنا لیاقت علی خان پہلی مسلم سفیر کے طور پر ہالینڈ میں پاکستانی سفیر مقرر ہوئیں۔
Flag Counter