عورتوں کو گھروں سے نکالنا اور حقوق کی آواز بلند کروانا تھا ۔ یہ معاشرتی زندگی میں عورتوں اور مردوں کی علیحدگی کی انتہائی مخالف تھیں۔زنان خانے کا تصور ہی ان کے نزدیک دقیانوسی تھا۔یہ علیحدہ خواتین یونیورسٹی کے قیام کے لیے اُٹھنے والی آوازوں کی بھی مخالف تھیں کیوں کہ ایسی یونیورسٹی سے عورتوں کو محفوظ اور مبنی برحجاب زندگی میسر آنے کا امکان تھا۔ان کے نزدیک یہ عورتیں یونیورسٹی کے بعد معاشرے کے دیگر اداروں میں بھی علیحدگی کا مطالبہ کریں گی اور پاکستان جیسی ترقی پذیر مملکت اس مطالبے کی متحمل نہ ہو سکے گی۔ نیز یہ عورتوں کی کھیلوں پر لگنے والی ہر پابندی کے خلاف تھیں، جب کہ پاکستان کے علمائے کرام عورتوں کی کھیلوں کے نام پر عورت کی عزت وپاک دامنی اور عفت وحیا کا قتل نہیں چاہتے تھے۔اس لیے نسوانی کھیلوں کے معاملے میں اس طبقے اور مذہبی طبقے میں اختلاف بڑھتا گیا۔عورتوں کا یہ طبقہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں ثقافتی پروگراموں کا فروغ چاہتا تھا اور ثقا فت کے نام پر بے حیائی اور بے باکی، رقص وسرود کو قانونی تحفظ دینا چاہتا تھا۔[1] مولاناامین احسن اصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’آزادی نسواں اور پردہ شکنی کی اس تحریک ہی کو مقبول بنانے کے لئے ڈراموں، تھیٹروں، ناچ گانے کی مجلسوں اور مینا بازاروں کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا۔ جس کی ہر دل عزیزی اس تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے کہ اندیشہ ہوتا ہے کہ شاید پاکستان میں تہذیب و ثقافت نام ہی ان چیزوں کا رہ جائے گا۔ ڈراموں میں بیشتر زنانہ نیشنل گارڈ، کالجوں کی طالبات اور سرکاری اداروں کی پناہ گزیں لڑکیاں حصہ لیتی ہیں جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ بیہودگی کو بطورِ آرٹ کے فروغ دینے کے لئے ہمارے اندر سے ایک مستقل طبقہ تحریک ِآزادئ نسواں کے ہاتھ آگیا ہے جو عجب نہیں کہ بگڑتے بگڑتے ایک دن اس کو پیشہ ہی بنا بیٹھے۔‘‘ [2] مینا بازار پاکستان میں بیگم رعنا لیاقت علی کی اوّلیات میں سے ہے۔ اُنہوں نے ہی کراچی میں اس کا آغاز فرمایا۔ پاکستان کی ابتدا ہی سے ’اپوا‘ کی بیگمات نے آزادئ نسواں کے فروغ کے لئے جو اُسلوب اپنایا، اسی کی بنا پر پاکستان میں طبقہ نسواں اور مذہبی طبقات میں شروع سے ہی ٹھن گئی۔ یہ پاکستان کے مذہبی طبقے کو عورتوں کے لیے حیات کے دروازے بند کرنے کا الزام دیتی تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ مذہبی طبقے نے عائلی مسائل کی تشریح میں عورت کو حقیر جگہ دی ہے اور اس باب میں اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے، حالانکہ ہر انتخاب میں ان کی ناکامی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ پاکستان کے عوام ان پر اعتماد نہیں کرتے۔ یہ عورتوں کے لیے ترقی کے درورازے بند کر دیتے ہیں، ان کی تشریحات ردّ عمل پر مبنی ہیں۔[3] اُنہوں نے مذہبی طبقے کے خلاف تنفر کو ہوا دے کر ان کو حاصل ہونے |