Maktaba Wahhabi

84 - 117
پاکستان زنانہ رضاکار سروس کے زیراہتمام جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے سابق وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خاں (متوفیٰ 1951ء) نے کہا: ’’عورتوں پر بالخصوص پڑھی لکھی اور پردے کی قید سے آزاد عورتوں پر ایک بھاری ذمہ داری ہے۔ اُنہیں اپنی تعلیم اور آزادی سے پورا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایسی مثال قائم کرنی چاہئے کہ دنیا دیکھ لے کہ ایک چار دیواری میں قید رہنے والی عورت اور اس عورت میں کیا فرق ہوتا ہے جو اپنی تعلیم کی مدد سے اپنے ملک اور اپنی قوم کو مضبوط بنانے کی جدوجہد کرتی ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں عورتوں کے لئے مکمل آزادی کے معاملہ میں آپ سے متفق ہوں۔ ہم مرد عورتوں کو آزادی دیئے جانے کے خلاف نہیں ہیں، جوبعض مرد بظاہر مخالف معلوم ہوتے ہیں، اُنہیں دراصل کچھ منفرد غلط مثالوں نے مذبذب بنا دیا ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جہاں تک ممکن ہوگا عورتوں کو حکومت کے ہر محکمہ میں پوری نمائندگی دی جائے گی۔ پاکستان اس غرض کے لئے حاصل کیا گیا ہے تاکہ دنیا کواسلامی اُصولوں پر قائم شدہ ریاست کا نمونہ دکھایا جاسکے۔‘‘ [1] اپوا کی کانفرنسیں عموماً گورنمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا کرتی تھیں۔ اس انجمن کو شروع سے یہاں خواتین میں بے پردگی عام کرنے، رقص و سرود کی محفلیں برپا کرنے اور مخلوط معاشرہ تشکیل دینے کی فکر تھی۔بقول امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ (متوفیٰ 1997ء) وہ اپنے یہاں ہالی وڈ کی تہذیب کو عہد ِرسالت کے تاریخی حوالوں کے ساتھ رائج کرنا چاہتے تھے۔[2] چنانچہ باقاعدہ: (1) آرٹ اکیڈمی، (2) زنانہ نیشنل گارڈز، (3) گرل گائیڈز، (4) بلیو برڈز(Blue birds) زنانہ رضاکار کور اور اینجلز آف مرسی(Angles of Mercy) یعنی زنانہ نرسوں کی تنظیم قائم کی گئی وغیرہ۔ خصوصاً مخلوط تعلیم کوبہت زیادہ اہمیت دی۔ بیرونی سربراہوں، اربابِ اقتدار، سول اور فوجی حکام کے سامنے بچوں اور خواتین کے دستوں کی پریڈیں، سلامیاں اور کھیلیں بہت پسند کی گئیں۔ موسیقی، رنگ، رقص اور زرّیں ملبوسات کے جلو میں مینا بازار اور ڈریس شو منعقد ہونے لگے۔ یہ ڈرامے ، مینا بازار اور ڈریس شوپاکستان کے قومی وملّی مقاصد کے لئے فنڈ اکٹھا کرنے کا کامیاب ذریعہ قرار دیئے گئے۔ بیشتر کالجوں میں مخلوط تعلیم دی جانے لگی اور یونیورسٹیوں میں آج تک علماء کے شدید احتجاج کے باوجود مخلوط تعلیم ہی جاری ہے۔ بیرونی ملکوں میں خواتین کے ثقافتی طائفے جانے لگے۔ یہ خواتین مذہبی ذہن کے زیر اثر پلنے والی عورتوں کے پردے کے رجحان سے انتہائی پریشان تھیں کیوں کہ پردے کے احکامات عورتوں کو شمع محفل بنانے کی بجائے گھر واپس بھیجتے ہیں جبکہ ان کی تحریک کا مقصد ہی
Flag Counter