Maktaba Wahhabi

83 - 117
ارکان کی تعداد 30لاکھ کے قریب تھی۔ [1] پاکستان میں حقوقِ نسواں کی ثقافتی کشمکش پاکستان میں اس مسئلہ نے وطن عزیز کے قیام کے ساتھ ہی شدت سے سراُٹھایا۔ پاکستان میں عورتوں کے مقاصد کوآگے بڑھانے کے لئے فوری طور پر ’اَپوا‘ کا قیام عمل میں لایا گیا اور ’اپوا‘ کے تحت ان تمام خواتین کو دوبارہ منظم کرنے کی کوشش کی گئی جنہوں نے تحریک ِپاکستان میں پرجوش حصہ لیاتھا۔ [2] یہ تمام خواتین آزادی پسند اور ترقی پسند خواتین تھیں جو مسلم ممالک میں دَر آنے والی مغربیت اور جدت کی لہر سے انتہائی متاثر تھیں اور پاکستان میں عورتوں کو ترقی کی راہ پر گامزن اور پردے سے آزاد ثقافتی سرگرمیوں میں حصہ لیتی دیکھنے کی خواہاں تھیں اور اس راہ میں متوقع رکاوٹ (علمائے کرام) کے خلاف تعصب سے بھری ہوئی تھیں۔ [3] حکومت ِپاکستان نے اس انجمن کوباضابطہ طور پر تسلیم کرلیا اور اعلان کیا کہ حکومت عورتوں کے معاملات میں قانون سازی کرتے ہوئے اس انجمن کے مشورہ کے بغیر کوئی قدم نہیں اُٹھائے گی۔ [4] ’اپوا‘آل پاکستان ویمن ایسوسی ایشن (All Pakistan Woman Association)کی بیگمات نے یہاں بھی مخلوط معاشرہ قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ بیگم رعنا لیاقت علی خاں (متوفیٰ1990ء) اس کی روح رواں تھی، جنہوں نے 28؍جنوری 1949ء کو جہلم میں جموں و کشمیر کے پناہ گزینوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا : ’’اب وہ وقت نہیں رہا کہ مسلمان عورتیں گھروں کی چاردیواری میں بند بیٹھی رہیں۔ اب اُنہیں خوابِ غفلت سے بیدار ہوناہوگا اور گھروں سے نکل کر مردوں کے شانہ بشانہ قوم کی فلاح و بہبود کے کاموں میں حصہ لینا ہوگا اور مردوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی عورتوں کی راہ میں حائل نہ ہوں، وہ اُنہیں اس بات کا موقع دیں کہ وہ ان فنون کو سیکھ سکیں جن کی اہلیت ان کے اندر پائی جاتی ہو۔‘‘ [5] مس فاطمہ جناح (متوفیٰ1967ء) ، بیگم خواجہ ناظم الدین، سلمیٰ تصدق حسین (متوفیٰ1995ء)، بیگم جی اے خان اور سرکاری حکام کی بیگمات اس تنظیم میں شامل تھیں۔ حکومت ِپاکستان نے اس انجمن کو باضابطہ طور پر تسلیم کرکے اعلان کردیا کہ جن معاملات کا تعلق عورتوں کے حقوق سے ہوگا، ان معاملات میں حکومت کی سرپرستی برقرار رہے گی۔ 24؍ جنوری 1949ء کو یونیورسٹی ہال لاہور میں مغربی پنجاب زنانہ مسلم لیگ اور
Flag Counter