Maktaba Wahhabi

82 - 117
بِالرَّغْمِ مِنِّيْ مَا تَعَالَجَ فِيْ النُّحَاسِ الْمُقَفَّلِ حِرْمِيْ عَلَیْكَ هَویً وَمَنْ یَحْرُزُ ثَمِیْنًا یَبْخَلُ[1] ’’ اس کے باوجود کہ میں نے سونے وچاندی کی طرح تمہاری حفاظت کی ہے (اور اس کے باوجود کہ)میری محبت ہمیشہ تمہارے ساتھ ہے اور جو شخص قیمتی چیز سے اعراض کرتا ہے وہ بخل سے کام لیتا ہے۔‘‘ حافظ کہتے ہیں: أنَا لَا أقُوْلُ دَعُوا النِّسَاءَ سَوَافِرًا بَیْنَ الرِّجَالِ یَجُلْنَ فِيْ الأسْوَاقِ[2] ’’میں یہ نہیں کہتا کہ عورتوں کو پردوں کے درمیان بے پردہ چھوڑ دو کہ وہ اسی حالت میں بازاروں میں گھومتی پھرتی رہیں۔‘‘ تحریک آزادی نسواں کے اباحیانہ تصورات نے ملتِ اسلامیہ کے تمام معاشروں کو متاثر کیا ہے اور نئی بحثوں کو جنم دیا ہے لیکن اسلامی معاشرہ حجابِ نسواں کو ترقی مخالف امر قرار دینے پر مطمئن نہیں۔ اسلامی جمہوریہ مصر میں تحریک ِآزادئ نسواں کی مخالفت بھی بہت ہوئی۔ چنانچہ مصری خواتین کو اسلام کے نظام ستر وحجاب سے آگاہ کرنے اور اجنبی مردوں سے ان کے آزادانہ میل جول کے خلاف ’’الإخوان المسلمون‘‘ کی خواتین شاخ ’’الأَخَوَاتُ الْمُسْلِمَاتُ‘‘ نے بہت اہم کردار ادا کیا۔[3] اس کے علاوہ نعمت صلاتی نے التبرج اور مصر کے نامور محقق اور ماہر انشا پرداز محمد فرید وجدی (متوفیٰ1954ء) نے ’’اَلْمَرْأةُ الْمُسْلِمَةُ‘‘لکھ کر اسلام کے نظام عفت و عصمت کا مؤثر انداز میں دفاع کیا۔ اسی کتاب کا ترجمہ برصغیر میں مولانا ابوالکلام آزاد (متوفیٰ 1958ء) نے ’مسلمان عورت‘ کے نام سے کیا۔ مصر میں حقوقِ نسواں کی جدوجہد میں زینب الغزالی (متوفیٰ1917ء) کا نام بھی نمایاں ہے۔ زینب نے نوجوانی میں ہدیٰ شعراوی کی تحریک ِنسواں میں شمولیت اختیار کی مگر جلد ہی یہ حقیقت سمجھ میں آگئی کہ یہ تحریک ِآزادی عورتوں کو حقوق کے نام پر اسلام سے گمراہ کررہی ہے اور یہ کہ اسلام نے خواتین کو ہر قسم کے حقوق فراہم کئے ہیں۔ اس لئے مزید کسی تنظیم یا تحریک سے وابستگی فضول ہے۔1936ء میں زینب نے’’جَمَاعَةُ السَیِّدَاتِ الْـمُسْلِمَاتِ‘‘کی بنیاد رکھی اور مسلمان طالبات میں اسلامی حقوق کا شعور بیدار کیا۔ اس وقت کی حکومت نے تنظیم کی مقبولیت اور توسیع کو محسوس کرتے ہوئے 1964ء میں اس پر پابندی لگا دی۔اس وقت اس کے
Flag Counter