بغیر تاریک رہے گا۔ برہان احمد فاروقی کے نزدیک طبقہ نسواں کی فکر فتنہ استشراق سے متاثرہے۔[1] سید ابوالحسن ندوی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’ان سارے اثرات اور آزادئ نسواں کی تحریکوں اور عملی اقدامات کے باوجود شرعی نقطہ نظر اپنی جگہ قائم ہے۔ اور اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام نے عورتوں کے لئے حجاب اور معاشرتی روابط کا ایک ضابطہ اخلاق تجویز کیاہے جس میں بے ضرورت اختلاط کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ اسی لئے مردوں اور عورتوں کے روابط کے متعلق اسلامی تاریخ اختلاط اور عام مجلسی میل جول کی مثالوں سے تقریباً خالی ہے۔ چودہ صدیوں پر محیط اسلامی معاشرہ کے ہردور میں پردہ و حجاب اور دیگر معاشرتی آداب پر اُمت کا تعامل ایک اٹل حقیقت ہے جس کو عصر حاضر کے وقتی حقوقِ نسواں کے تقاضے کے تحت تعبیر نو کرکے دبایا، چھپایا یا تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ اس طرح تمام مسلم اقوام کے حیثیت ِنسواں کے معاملہ میں یا دیگر معاشرتی اُمور سے متعلق انحراف اور بے راہ روی کو جائز قرار دے کر اسلام کی طے کردہ حیثیت ِنسواں کو اذکارِ رفتگی کی دلیل نہیں بنایا جاسکتا۔ انتشار، انحراف، کج روی اور بے راہ روی کی یہ وقتی لہر بالآخر تھم کر رہے گی اور ہادیٔ انسانیت سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے جگمگاتے نقوش اُمت ِمسلمہ کو اپنے اصل سانچے میں ڈھال کر رہیں گے۔‘‘ [2] مسلم ممالک میں آزادئ نسواں کی تحریک آگے بڑھتی رہی۔ عورت کو تعلیم حاصل کرنے کے مواقع مردوں کے برابر دیئے گئے۔ اسی طرح مردوں کے برابر ہر شعبہ حیات میں ان کے شانہ بشانہ چلنے کا بھی مغربی نعرہ تسلیم کرلیا گیا۔ مسلمان معاشروں میں اگر ان تجدد پسندوں کی آرا کو ایک طبقہ نے پسند اور قبول کیا تو دوسرے طبقہ نے اس نام نہاد آزادی کی مخالفت کی اور اسے دینِ اسلام اور عورت کی فطری صلاحیتوں کے خلاف ایک بغاوت قرار دیا۔ اس طبقہ کے اہل علم حضرات نے قاسم امین اور ان کے متبعین کی آرا کی سخت مخالفت کی۔مصر کے اخبارات میں بے شمار مقالات ان کی مخالفت میں شائع ہوئے، نیز ایسی مستقل کتب بھی تالیف ہوئیں جن میں عورت کے مقام اور اسلام نے اسے جو حقوق عطا کئے ہیں، اس پر اظہار خیال کیا گیا۔ مصر کے نامورادیب مصطفیٰ لطفی منفلوطی(متوفیٰ1924ء) عورت کی تعلیم و تربیت کے حامی ہیں، لیکن وہ یہ پسند نہیں کرتے کہ عورت حیا کے پردے کو تار تار کردے۔ مصر کے شعرا نے بھی متجددین کی بے باک آزادی کی دعوت کو دین و مذہب کے خلاف سازش قرار دیا۔اور مصر کے کثیر شعراء تجدد پسند ہونے کے باوجود عورت کو کھلی آزادی دینے کے حق میں نہیں۔ ایک ملی شاعر کہتے ہیں: |