سے تعددِ ازواج کی آزادی کو محدود و مقید کردیا گیا ہے۔ شوہر کے حق طلاق پر پابندیاں عائد کردی گئی ہیں۔ یہ خاندانی آزادی، سیاسی اور معاشرتی آزادی کے ساتھ مل کر دو چند ہوجاتی ہیں۔ عورتوں کو تیونس میں رائے دہندگی اور مجلس قانون سازی کا ممبر بن سکنے کا حق بھی حاصل ہوچکا ہے۔ تمام ملازمتوں میں عورتوں كی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، پردہ کم ہوتا جارہاہے، باہرنکلنے والی عورتوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے اور سیاسی محفلوں میں وہ مردوں کے دوش بدوش نظر آتی ہیں۔ [1] افغانستان میں امیر امان اللہ خان(متوفیٰ 1960ء) کے دور تک اسلامی روایات اور تہذیب پوری طرح چھائی ہوئی تھی۔ لیکن اب افغانی قوم بھی تجدد کی اس راہ پر چل پڑی ہے۔ پردہ اب وہاں بھی پسماندگی اور غربت کی علامت بن گیاہے۔ مغربی لباس عام ہے۔ عورتوں میں یورپ کے پھیلائے ہوئے کامل مساوات مرد وزَن کے نظریہ کے اثرات بہت گہرائی تک اُتر چکے ہیں۔ [2] الجزائر، انڈونیشیا اور برصغیر پاک و ہند میں بھی تجدد پسندی کے یہ اثرات بہت تیزی سے پھیل رہے ہیں جن سے خاندانی اور قومی زندگی تباہی و بربادی کی راہ پر چل پڑی ہے۔ البتہ برصغیر پاک وہند میں اسلام پسندی کی جکڑبندی ابھی بھی شدید ہے ۔یہاں کے علماء کی فکر میں بھی عورت کے معاملے میں مغربی افکار کی مزاحمت غالب ہے۔یہاں کا مذہبی طبقہ تجدد پسندی کو مغربی مغلوبیت کا شاخسانہ قرار دے کرحقوقِ نسواں کی تعبیر نو یا عورت سے متعلق کسی بھی نئی فکر کا مخالف ہے۔ وقت کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ کسی بھی مذہبی معاملہ میں انتشار اور محاذآرائی اس خطے کا خاصہ بنتی جا رہی ہے ۔جدید اور قدیم، تجدد پسند اور روایت پسند اپنے خدوخال کو نمایاں کرتے جا رہے ہیں اور اُنہوں نے جدید مسلمان عورت کو عجیب دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے۔ دراصل اس خطے کی تہذیب قدیم ہندو تہذیبی غلبے سے بھی عبارت ہے اور برطانوی سامراج سے بھی،سکھ یاتریوں کے اثرات سے بھی متاثر ہے اور بیسویں صدی میں معاشی غلبے کے تحت بڑھتی ہوئی غربت کی چیرہ دستیوں کی بدولت تشدد پسندی،جبروقید اور روایت پسندی کی اسیر بھی ہے۔ لیکن یہاں کے بھی اُمرا اور رؤسا کی بیگمات اپنی بے باکی، آزادروی اور پردہ بیزاری کے ساتھ خم ٹھونک کر تعبیر نو کے میدان میں اُتر چکی ہیں اور اس خطے کی عام عورت سے وابستہ مذہبی اور روایتی فکر کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے ۔ مذہبی فکر کے پاس تاریخی ،دینی اورعلمی اساسات کا ورثہ ہے تو جدید فکر کے نزدیک یہ ورثہ مغربی تنقید کی کڑی دھوپ میں ان کی چھتری بننے سے قاصر ہے۔ان کا یہ کہنا ہے کہ مسلمانوں کا ماضی چاہے کتنا بھی تابناک ہو، مگر ان کا مستقبل مغربی اقوام کا سہارا لیے |